جاپان میں خواتین کی سیاست میں شمولیت

379

اپنی تمام تر ترقی اور روشن خیالی کے باوجود جاپان ایک روایت پسند معاشرے کی شہرت رکھتا ہے، جہاں تاریخی طور پر مرد کو حاکمیت اور طاقت کا منبع تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس سماجی تفریق کے باوجود جاپان میں جن چند خواتین نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے سے لوہا منوایا ان میں ایک نام محترمہ یوریکو کوئیکے کا بھی ہے، جو آج سے آٹھ سال قبل سیاسی میدان میں ایک مرد پیش رو کو شکست دیتے ہوئے ٹوکیو کی پہلی خاتون رہنما بن کر ابھریں اور ایک نئی تاریخ رقم کی، جبکہ حال ہی میں انہوں نے بطورِ گورنر اپنی تیسری مدت کے انتخابات میں فتح حاصل کی۔ جاپان میں ان کی فتح کو اس اعتبار سے ایک اہم تبدیلی کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر خواتین کا مردوں سے مقابلہ کرنا جاپان میں اب بھی ایک اچنبھا سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ جاپان عالمی صنفی مساوات کی درجہ بندی میں قدرے نچلی سطح پر ہے، چنانچہ مردانہ فوقیت رکھنے والے جاپانی معاشرے میں کوئیکے کی جیت کو ایک مثبت تبدیلی کی علامت سمجھا جارہا ہے۔ جاپان کے سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے میں یہ تبدیلی ظاہر کرتی ہے کہ جاپانی معاشرے میں خواتین کے اثر رسوخ میں اضافہ ہو رہا ہے اور سیاست میں صنف نازک کی بطور رہنما قبولیت بڑھ رہی ہے۔ ہرچند کہ یہاں کی سیاست اب بھی مردوں کے زیر تسلط ہے، لیکن قرین قیاس ہے کہ مستقبل میں ایک عورت کے وزیر اعظم بننے کے امکانات پر بھی گفتگو کا آغاز ہوجائے۔

ایک موقر خبری ویب سائٹ جاپان ٹوڈے نے حال ہی میں معروف پارلیمنٹیرین اور جاپان کی مرکزی اپوزیشن جماعت، کانسٹی ٹیوشنل ڈیموکریٹک پارٹی کی سینئر عہدیدار چنامی نشیمورا کا ایک بیان شائع کیا ہے، نشیمورا کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’سیاست میں خواتین کے کردار کو بڑھانے کے حوالے سے اب توقعات بڑھ رہی ہیں‘‘۔ ان کا کہنا ہے کہ خواتین کا سیاست یا پارلیمنٹ میں موجود ہونا اور اپنی آواز بلند کرنا انتہائی معنی خیز ہے۔ واضح رہے کہ 1999 میں نیگاتا کی صوبائی اسمبلی سے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کرنے والی، نشیمورا پہلی خاتون تھیں جنہوں نے طویل عرصے وہاں خدمات انجام دیں۔ محترمہ نشیمورا کی جماعت اگلے قومی انتخابات میں 30 فی صد خواتین اْمیدواروں کو پارلیمنٹ میں پہنچانے کی بات کرتی ہے، جبکہ جاپان کے موجودہ وزیر اعظم فومیو کیشیدا کی قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی 30 فی صد خواتین کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اس تمام منظر نامے کے باوجود ایک چیلنج بہر حال موجود ہے کہ جاپانی سیاست میں خواتین امیدواروں کو تلاش کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ جاپان میں اب بھی خواتین سے یہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں کہ وہ بچوں کی پرورش، بزرگوں کی دیکھ بھال اور دیگر خاندانی ذمے داریوں کا بیڑہ اٹھائیں گی۔

اس صورتحال کے باوجود تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ باوجود یکہ جاپان میں خواتین گرم جوشی سے سیاسی کیریئر کا انتخاب کر رہی ہیں، لیکن اب بھی وہ اقلیت میں ہیں، خصوصاً قومی سیاست میں، جہاں انتخابی فیصلے بڑی حد تک بند دروازوں کے پیچھے، مردوں کی غلبے والی پارٹی سیاست سے طے پاتے ہیں۔ خواتین کی سیاسی میدان میں پیش رفت کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ کوئیکے کے اہم حریفوں میں سے ایک خاتون، رین ہو، بھی تھیں جنہیں ایک تجربہ کار سابق پارلیمنٹیرین سمجھا جاتا ہے اور وہ جو انتخابی معرکے میں تیسرے نمبر پر آئیں۔ سیاست میں کوئیکے کی مقبولیت کو محسوس کیا جارہا ہے اور میڈیا انہیں اہمیت دے رہا ہے۔

محترمہ کوئیکے کے شخصی خاکے کو بیان کرتے ہوئے جاپان ٹوڈے لکھتا ہے کہ وہ ایک اسٹائلش اور اسمارٹ خاتون ہیں جو ٹیلی ویژن نیوز کاسٹر بھی رہ چکی ہیں، وہ 1992 میں 40 سال کی عمر میں پہلی بار پارلیمنٹ میں منتخب ہوئیں۔ انہوں نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے متعدد کلیدی کابینہ عہدوں مثلاً وزیر ماحولیات اور دفاع کی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں، اور بعد ازاں وہ ٹوکیو کی گورنر بنیں۔ اسی طرح ایک اور خاتون رہنما رین ہو بھی ہیں جن کی وجہ شہرت پارلیمنٹ میں تیز اور سخت سوالات اٹھانا ہے۔ ان کی والدہ جاپانی جبکہ والد کا تعلق تائیوان سے تھا۔ وہ سابق ماڈل اور نیوز کاسٹر رہی ہیں جنہیں 2004 میں رکن پارلیمنٹ منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے ماضی کی جمہوری پارٹی (جو اب تحلیل ہوچکی ہے) کی حکومت میں انتظامی اصلاحات کی وزیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جاپانی سیاست میں خواتین کے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے طاقتور خواتین پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ماری میورا، جو صوفیہ یونیورسٹی کی پروفیسر اور جنس اور سیاست کی ماہر ہیں کے مطابق، ٹوکیو کی گورنر شپ کے انتخاب میں خواتین کی موجودگی ایک مثبت پیغام ہے جو بتاتا ہے کہ خواتین بھی سیاسی رہنما بن سکتی ہیں، لیکن جاپان میں خواتین کے حوالے سے اب بھی کہیں کہیں عدم تحفظ کا احساس نظر آتا ہے مثلاً قومی اور مقامی قانون سازوں کے ایک سروے کے مطابق، 2022 میں تقریباً 100 خواتین جواب دہندگان میں سے ایک تہائی کو انتخابی مہمات یا کام کے دوران جنسی طور پر ہراساں ہونے کے تجربے کا سامنا کرنا پڑا۔

ٹوکیو کی اسمبلی کا تقریباً 30 فی صد خواتین پر مشتمل ہے، مزید برآں شہری علاقوں کی قصباتی اسمبلیوں میں بھی ان کی موجودگی اب بڑھ رہی ہے۔ 2021 میں جاپان کی 1,740 سے زیادہ مقامی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی دوگنی ہو کر 14.5 فی صد ہوگئی ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں، جہاں روایتی طور پر مرد غالب نظر آتے ہیں اور جہاں اس سے قبل اسمبلی میں خواتین کی شرح ’’صفر‘‘ تھی اب صورتحال تبدیل ہورہی ہے۔ پارلیمنٹ میں، جہاں قدامت پسند لبرل ڈیموکریٹس تقریباً دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تقریباً بلا تعطل اقتدار میں ہیں، اب ایوان زیریں میں خواتین کی نمائندگی 10.3 فی صد ہے، واضح رہے کہ 1946 میں، جب پہلی دفعہ 39 خواتین پارلیمنٹ میں منتخب ہوئیں، مردوں کے مقابلے میں یہ تناسب 8.4 فی صد سے زیادہ نہیں تھا، خواتین کی سیاست کے میدان میں بھرپور شرکت کا استعارہ بننے والی محترمہ یوریکو کوئیکے 2008 میں ایل ڈی پی قیادت کی دوڑ میں حصہ لینے والی پہلی خاتون امیدوار بنیں۔ جبکہ دو دیگر خواتین، سناے تاکائیچی اور سیکو نودا، 2021 میں کیشیدا کے خلاف دوڑ میں شامل ہوئی تھیں۔

جاپان میں خواتین کی سیاسی شمولیت کی یہ پیش رفت ایک ترقی پسند معاشرت کی علامت ہے۔ یہ دنیا کے ان ممالک کے لیے ایک مثال ثابت ہو سکتی ہے جہاں مردوں کی بالادستی قائم ہے۔ جاپان کی یہ تبدیلی اور ترقی خواتین کی مضبوطی اور ان کے حقوق کی پہچان کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ جب ایک معاشرہ خواتین کو برابری کے مواقع فراہم کرتا ہے، تو وہ نہ صرف اپنے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام دیتی ہیں کہ صنفی مساوات ممکن ہے اور اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔