زندگی کا ایک ایک لمحہ کتنا طویل اور ناقابل برداشت ہوسکتا ہے لوگوں کو تب پتا چلا جب وہ چاروں طرف سے سیلاب کے پانی میں گھر گئے۔ ہر دن جو چڑھتا موت کی منزل سے انہیں قریب کردیتا تھا۔ موت سے بچنے کے لیے لوگ درختوں پر چڑھ گئے یا گرے ہوئے درختوں کے لٹھوں کو با ندھ کر تخت بنا لیے۔ وہ زمین، گزر گاہیں، سڑکیں اور محلے جن کے بیچ لوگ رہتے تھے سب پانی سے بھر گئے تھے اور اس پانی کی نکاسی کے دور دور کہیں آثار نہیں تھے۔ مسلسل ایک دوسرے کے ساتھ رہنے سے لوگ پراگندہ، منتشر اور پر یشان ہو گئے تھے۔ شروع میں ہفتے دس دن اور پھر مہینے میں فضا میں گھوں گھوں ہوتی، ہیلی کاپٹر نمودار ہوتے اور ان پر کھانے پینے کی چیزیں اور کچھ رہنے سہنے کی اشیا گراکر چلے جاتے۔ ان ہی دنوں کچھ فلاحی تنظیموں کے رضا کار بھی کشتیوں میں بیٹھ کر آتے اور انہیں ضروری سامان دے کر چلے جاتے۔
چھے مہینے سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا تھا۔ پانی پاگل کردینے کی حد تک متعفن ہو چکا تھا۔ مچھروں کی وہ بہتات تھی کہ ان کے کاٹے کی خارش برداشت کرنے سے مرجانا ہزار درجہ بہتر تھا۔ ان میں دس میں سے نو ملیریا کا شکار ہو چکے تھے لیکن اب وہ مچھروں کے اتنے عادی ہو چکے تھے کہ تھوڑا سا پریشان یا بے کل ہونے کے سوا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ ہیلی کاپٹر اور فلاحی تنظیموں نے بھی اب ان کی مدد کے لیے آنا چھوڑ دیا تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے چند دن کے لیے ہیلی کاپٹر والوں اور فلاحی اداروں کی توجہ اپنی طرف مائل کی تھی لیکن اب وہ پھر سیاست کی آنکھ مچولیوں، پارٹیوں اور سرپرائز کی عادت کی طرف لوٹ گئے تھے۔ سیاست کے چسکے انہیں زیادہ عرصے کسی طرف متوجہ نہیں رہنے دیتے تھے۔ سیلاب میں پھنسے لوگوں کا گزارا اب جڑی بو ٹیوں، درختوں کے پتوں اور سوکھی کائی پر تھا۔ ان کے سوکھے ہوئے جسموں پر چتّیاں ہی چتّیاں اور کالے کالے نشانات پڑ گئے تھے۔
لوگ اپنے جال لے کر روز بوٹیوں کی تلاش میں نکل جاتے تھے۔ جب وہ بوٹیاں
ڈھونڈ کر واپس آتے تو سب سے اچھی بوٹیاں عالموں کی خدمت میں پیش کرتے۔ عالموں کو کوئی فکر وفاقہ نہیں تھا۔ جاہلوں، گنواروں اور دیہاتیوں کے درمیان وہ پڑھنے پڑھانے اور بحث مباحثے میں مصروف رہتے تھے۔ بعض اوقات ان کے مباحثوں کا شور اتنا بلند ہو جاتا کہ پانی کی لہروں کا شور بھی دب جاتا۔ شروع شروع میں جب ہیلی کاپٹر اور رضاکار آتے تو عالم لوگوں کو یقین دلاتے کہ حکومت نے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک وزیر مقررکیا ہے۔ بس چند دن کی بات ہے وہ آنے ہی والا ہے لیکن جب آٹھ دس مہینے گزر گئے اور وزیر دور دور نظر نہیں آیا تو اس حوالے سے عالموں کو چپ سی لگ گئی۔ ان کی بحثوں کا رخ حکومت کی طرف مڑ گیا۔ وہ حکومت پر شدید تنقید کرتے۔ وہ کہتے جس پارٹی کی حکومت ہے اس کا سربراہ موروثیت کے نتیجے میں سر براہ بنا ہے۔ یہ امیروں کی اولادیں ہیں جنہیں غریبوں کی کوئی فکر نہیں۔ یہ بدمعاشوں کی اولادیں ہیں اور خود بھی بد معاش ہیں جن کی کوششوں کا مقصد محض لوٹنا کھسوٹنا ہے۔ اس بحث مباحثے میں چند مہینے اور گزر گئے۔ ایک دن عالموں کے درمیان شدید بحث ہوئی جو باہمی جھڑپ میں تبدیل ہوگئی۔ جاہل گنوار دیہاتیوں نے آکر آپس میں دست وگریبان عالموں کو چھڑایا لیکن ایک کمزور سا نوجوان عالم ان کے قبضے میں نہیں آیا جو باقی عالموں کی طرف منہ کرکے چیخ رہا تھا:
’’تم سب بکواس کرتے ہو، تم سب جھوٹ بول رہے ہو، حکومت! حکومت! حکومت! یہ کیا بکواس ہے؟ تم میں سے کسی نے کبھی حکومت کو دیکھا ہے؟ کبھی اسے چھوا ہے؟ اس نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ محض خیال اور فرضی ہیولا ہے۔ ہمارے باپ دادا کا تخیل جو ورثے میں ہم تک منتقل ہو گیا ہے، حکومت ایک گمراہ کن افواہ سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ حد سے حد یہ پانی میں بہنے والے ایک حقیر کیڑے اور فضائوں میں اڑنے والے ایک چھوٹے سے پرندے کا نام ہو سکتا ہے۔ کیا ایک حقیر کیڑا اور چھوٹا سا پرندہ سیلاب پر قابو پا سکتا ہے؟‘‘
جھڑپ کے خاتمے اور دیہاتیوں کے جانے کے بعد جب جذبات کی شدت میں کمی آئی تو سوائے چند کے بیش تر عالم نوجوان عالم کی بات سے متفق ہو چکے تھے کہ واقعی حکومت نامی کسی چیز کا وجود کہیں نہیں پایا جاتا۔ اس موقع پر سب سے بڑے عالم نے چیختے ہوئے کہا ’’بات اتنی آسان نہیں ہے، جاہل اور گنوار دیہاتیوں میں پھیل چکی ہے ہمیں دلائل سے ثابت کرنا ہوگا کہ حکومت نامی کوئی چیز کہیں وجود نہیں رکھتی‘‘۔ اگلے تین مہینے عالموں کا جتھا اس موضوع پر دلائل تخلیق کرتا رہا۔ جب وہ حکومت کے عدم وجود پرخاطر خواہ دلائل جمع کرچکے تو بڑے طنطنے کے ساتھ اٹھے اور پانچ صنوبر کے درختوں سے چھال اتار کر لکڑی کے کوئلے نما پانی سے ان پر دلائل لکھنا شروع کردیا۔ پورے ایک ہفتہ وہ حکومت کے وجود نہ ہونے پر دلائل لکھتے رہے۔ دیہاتی جوق در جوق ان کے دلائل پڑھنے آنے لگے۔ واہ واہ کرکے ان کے خیالات کی تائید کرتے اور قیمتی بوٹیاں اور سوکھی کائی ان کی نذر کرتے۔
سیلاب کے پانی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے درمیان اب یہ ایک عقیدہ بن چکا تھا کہ حکومت نامی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن ایک دن ایک گنوار دیہاتی نہ جانے کہاں سے آنکلا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’حکومت کا وجود ہے، ایسے آدمی بھی ہیں جو حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں‘‘ سب سے بڑا عالم اس وقت دو پہر کا کھانا کھا رہا تھا۔ وہ چنگھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’کیا ایسا بھی کوئی ہے جو کہے کہ حکومت نامی کوئی وجود پایا جاتا ہے‘‘ منہ سے نکلی ادھ چبی بوٹی اس کی ڈاڑھی میں پھنس گئی۔ غصے سے اس کی ناک سرخ ہو گئی تھی۔
’’یقینا ہے۔ میں نے خود حکومت کے آدمی دیکھے ہیں۔ حکومت کوئی فرضی چیز نہیں ہے۔ حکومت وجود رکھتی ہے‘‘۔
’’محترم بڑے عالم صاحب! اس گنوار سے بحث نہ کریں‘‘ ایک دراز قد عالم نے بڑے عالم سے درخواست کرتے ہوئے کہا ’’اس جاہل سے کہیں اپنی بات کے ثبوت میں دو گواہ پیش کرے‘‘
’’میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے‘‘۔
اس وقت تک بہت سارے لوگ شور سن کر جمع ہو چکے تھے۔ بڑا عالم غصے سے چیخ رہا تھا ’’یہ تم جیسے جاہل اور گنوار ہوتے ہیں جو عالموں کی تحقیق پر شک کرتے ہیں۔ جائو دفع ہو جائو۔ جب تک ثبوت نہ لے آئو شکل مت دکھانا‘‘۔
اس بحث سے لوگوں میں قدرے ہلچل پیدا ہوئی۔ ان میں سے اکثریت شک و شبہ میں پڑ چکی تھی۔ دو ہفتے بھی نہ گزرے تھے کہ ایک اور شخص نہ جانے کہاں سے آٹپکا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں نے خود ایک حکو متی وزیر دیکھا ہے۔ وزیر کا قافلہ چلا جارہا تھا کہ میں نے زور سے کہا ’’وزیر صاحب ہمارے علاقوں سے سیلاب کے پانی کی نکاسی کا بندو بست کرائو۔ ہم لوگ بھوک اور بیماریوں سے مررہے ہیں‘‘ میں یہیں تک کہہ پایا تھا کہ وزیر کے محافظوں نے مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے دھکا دیا جس سے میرے سر میں بڑا سا سیاہ گومڑا پڑ گیا ہے۔ عالموں نے اس کے گومڑے کا معائنہ کیا اور سنجیدہ تحقیق کے بعد فیصلہ دیا کہ اس کا گومڑا اصلی تھا۔ گومڑے والا شخص لوگوں میں بہت مشہور ہو گیا تھا۔ لوگ دور دور سے اس کا گومڑا دیکھنے آتے۔ چند مہینے بعد اس کا گو مڑا سوکھ کر غائب ہو گیا۔ اس عرصے میں سیلاب کا پانی بھی سورج کی حرارت سے سوکھ کر ایسا خشک ہو گیا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ اگلے سال لوگ قطار میں لگ کر حسب عادت الیکشن میں حکومت کو ووٹ دے رہے تھے۔