اسلام آباد (نمائندہ جسارت )پاکستان کی ترقی کا راستہ براہ راست اس کی نوجوان نسل کی صلاحیت اور تعلیمی نظام میں جدت سے جڑا ہے۔ اس تبدیلی کی طاقت کو پوری طرح سے بروئے کار لانے کے لیے تعلیم کو قومی ترقی کی حکمت عملی میں مرکزی حیثیت دینا ضروری ہے۔ اصلاحات اور بااختیار بنانے پر مرکوز یہ نقطہ نظر، پاکستان کو مستقبل کے رہنماوں کو تیار کرنے، ابھرتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے اور خود کو ایک عالمی کھلاڑی کے طور پر منوانے کا موقع فراہم کرے گا۔ تعلیم کو قومی اور بین الاقوامی حکمت عملیوں میں مرکزی حیثیت دے کر پاکستان ایک زیادہ پائیدار اور ترقی پسند مستقبل کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ یہ بات انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد کی قومی مشاورتی کونسل (نیشنل ایڈوائیزری کونسل)کے سالانہ اجلاس میںشریک ممتاز علما اور ماہرین تعلیم
نے گفتگو کے دوران کہی ۔مقررین میں چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد، سابق وائس چانسلر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) ڈاکٹر اسد زمان ، شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر جلیل عالی ، ایچ ای سی کے کنسلٹنٹ اور سابق وائس چانسلر ہری پور یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی، جامعہ الرشید کراچی کے سربراہ اور چانسلر الغزالی یونیورسٹی مفتی عبدالرحیم، وائس چانسلر گوادر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر ، کامسیٹس یونیورسٹی، اسلام آباد کے بانی ریکٹر ڈاکٹر سید محمد جنید زیدی ، سینئر لیکچرار، کرٹن یونیورسٹی، آسٹریلیا ڈاکٹر مسعود محمود خان ، اور چیئرپرسن، شعبہ بشریات، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد ڈاکٹر نورین سحر شامل تھے۔ فورم کی صدارت آئی پی ایس کے چیرمین خالد رحمن نے اور نظامت سابق سفیر سید ابرار حسین نے کی۔ گفتگو میں اس بات پر زور دیا گیا کہ قوم کی ترقی ایک ایسے تعلیمی نظام سے جڑی ہوئی ہے جو جدید دور کے چیلنجز اور مواقع سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کو ڈھانچوں میں اصلاحات کرنی ہوں گی تاکہ نوجوانوں کو عملی اور آگے کی سوچ رکھنے والے علم سے بہتر طور پر لیس کیا جا سکے۔ یہ اصلاح پاکستان کو مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے اور ترقی پذیر عالمی منظرنامے میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ مقررین نے موجودہ نسل کی بڑھتی ہوئی بیداری اور عزم کے بارے میں امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صحیح تعلیمی ماحول کے ساتھ نوجوان تبدیلی کے طاقتور ایجنٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم، اس بات کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ پچھلی تعمیری کوششوں کا اثر اتنا محدود کیوں رہا۔ نوجوانوں کو قومی ترقی کے لیے محرک کے طور پر کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے نظامِ تعلیم کو انھیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا ہو گا جہاں وہ اپنی آواز بلند کرسکیں اور قومی گفتگو میں بامعنی حصہ ڈال سکیں۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری ڈھانچے کی تشکیل اور طلبہ یونین جیسے پلیٹ فارمز کا اس طرح سے احیا بھی شامل ہے کہ وہ نوجوانوں کی قیادت اور مشغولیت کے لیے انکیوبیٹر کا کام کریں۔ اسی طرح تعلیم غلط معلومات اور پانچویں نسل کی جنگ کے خلاف اسٹریٹجک لچک پیدا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ مقررین نے نوجوانوں کو قومی طاقتوں اور مخالفین کی حکمت عملیوں کے بارے میں آگاہی کے ذریعے ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک متحد قومی حکمت عملی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ تعلیم کے اسلامائزیشن کے عمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے مقررین نے تعلیمی مواد اور تدریس کو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی اہمیت پر اس بات کو یقینی بناتے ہوئے زور دیا کہ علم کو نہ صرف حاصل کیا جائے بلکہ اس کا اطلاق عقیدے میں جڑے اخلاقی فریم ورک کے اندر بھی ہو۔ یہ ان افراد کی مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لیے اہم ہے جو فکری طور پر قابل، روحانی طور پر مستحکم، اور سماجی طور پر ذمہ دار ہیں۔مزید برآں، مقررین نے پاکستان کے تعلیمی نظام کا پرائمری سے لے کر اعلی سطح تک ایک جامع آڈٹ کرانے کی ضرورت پر روشنی ڈالی تاکہ اس کی ملک کی سماجی و اقتصادی حقیقتوں سے ہم آہنگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نصاب کو پاکستان کی ترقیاتی ضروریات کی عکاسی کرنے کے لیے اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے اور طلبا کو عالمی مسابقت کے لیے درکار عملی مہارتوں سے آراستہ کرنا چاہیے۔ ان داخلی اصلاحات کے علاوہ مقررین نے سفارت کاری کے ایک آلے کے طور پر تعلیم کے وسیع تر وژن کی وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو ہمسایہ ممالک اور اس سے آگے موجود ہم منصبوں سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ یہ تعلیم کا استعمال کرکے مکالمے کو فروغ دینے، علاقائی مسائل حل کرنے، اور سماجی ترقی کو بڑھانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی سفارتکاری پاکستان کے عالمی تعلقات کو شکل دینے میں ایک اہم آلہِ کار بن سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ اس کی نوجوان نسل کی آوازیں بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر سنی جائیں۔