اے ابن آدم ملک میں واحد ایماندار قیادت اگر کسی پارٹی میں ملتی ہے تو وہ ہے جماعت اسلامی، اگر جمہوریت دیکھنی ہے تو جماعت اسلامی میں دیکھ لو، موروثی سیاست سے بہت دور رکھا مولانا مودودیؒ نے، نہیں تو اُن کا کوئی بیٹا اس جماعت کا امیر ہوتا مگر افسوس ہوتا ہے جب میں جماعت کے خلاف لوگوں کے کمنٹس دیکھتا ہوں کیسی بدنصیب قوم ہے چوروں، لٹیروں، قومی دولت لوٹ کر کھانے والوں، فارن فنڈنگ کیس، دبئی لیکس، پاناما لیکس، توشہ خانے کے چوروں، آئی پی پیز کی لوٹ مار، گیس و پانی کے بھاری بلز کے باوجود ان کی بندش کرنے والوں کے خلاف کھڑے ہونے کے بجائے ان لوگوں کا تمسخر اُڑاتے ہیں، ان کی کامیابی کے بجائے ان کی ناکامی کا انتظار کررہے ہیں جو جماعت اس مفلوک الحال غربت کی ماری قوم اور اشرافیہ کی عیاشیوں کے خلاف تنہا کھڑے ہوئے ہیں، مقدمات کا سامنا کررہے ہیں مگر حق کی یہ جنگ لڑ رہے ہیں ایسے لوگوں سے ابن آدم اپیل کرتا ہے کہ اگر تم جماعت کا ساتھ نہیں دے سکتے بے شک مت دو مگر اس وقت تک انتظار ضرور کرو کیونکہ عوام کی اس جاری جنگ میں ان شاء اللہ فتح جماعت کے نصیب میں اللہ نے لکھ دی ہے۔ یاد رکھو خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔
سوشل میڈیا پر بہت سی کام کی چیزیں بھی آتی ہیں مگر یہ بے شعور قوم نہ اُن کو لائک کرتی ہے نہ شیئر کرتی ہے، ان کو تو بے ہودہ چیزیں پسند ہیں۔ آئی ایم ایف کی ایک کہانی نظر سے گزری جس کو آج ریکارڈ پر لے کر آرہا ہوں اس وجہ سے کے انسان تو فانی ہے مٹی میں مل جائے مگر تحریر برسوں قائم رہتی ہے بلکہ نسل در نسل منتقل بھی ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کی طرف ساڑھے سات ارب ڈالر قرض کی درخواست پر جو شرائط لگائی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اس مالی سال میں واجب الادا ساڑھے چھبیس ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کو رول اوور کروائیں تا کہ ادائیگیوں کا توازن برقرار رہے۔ اس میں سب سے اہم نکتہ، چین، سعودی عرب اور عرب امارات کے دیے گئے تقریباً ساڑھے 8 ارب ڈالر کے قرضے ہیں۔ اب تک کی دستیاب معلومات کے مطابق موجودہ (ن) لیگ کی حکومت اپنے تمام تر دعوئوں کے باوجود ان تینوں قرضوں کو رول اوور کروانے میں ناکام رہی ہے۔ سعودی عرب نے اپنے قرضوں کو موخر کرنے کے لیے ریکوڈک منصوبے میں سے 15 فی صد حصہ مانگ لیا ہے جس کے بدلے میں وہ صرف ڈیڑھ ارب ڈالر دیں گے جبکہ اللہ نے جو ہمیں اتنا بڑا خزانہ عطا کیا ہے وہ تقریباً 600 ارب ڈالر سے زیادہ ہے، اس سے بہت زیادہ قیمت ہے مگر یہ کم لگا کر بتائی ہے اگر 15 فی صد سے حساب لگائیں تو 90 ارب ڈالر ہے اور سعودی جو اپنے آپ کو ہمارا دوست کہتے ہیں اسے محض ڈیڑھ ارب ڈالر میں لینا چاہتے ہیں اس کے علاوہ سعودی کافی عرصے سے پاکستان سے 10 لاکھ ایکڑ زمین 99 سال کی لیز پر دینے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں جہاں پر وہ زرعی اجناس اُگا کر انہیں سعودی عرب لے جانا چاہتے ہیں تا کہ وہ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈی میں فروخت بھی کرسکیں۔ یہ فرمائش سعودی حکومت نے پہلی مرتبہ پرویز مشرف کے زمانے میں کی تھی اور مبینہ طور پر صرف 40 برس کے لیے تھی اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے اس تجویز کے لیے پہلی مرتبہ کارپوریٹ فارمنگ کی اصلاح استعمال کی تھی، مشرف صاحب کے زمانے میں اسمبلی میں بیٹھے ہوئے بڑے بڑے زمینداروں نے حکومت کو یہ سمجھایا کہ غیر ملکی کمپنیاں تو کیمیائی کھادوں کا بے دریغ استعمال کرکے اپنی فصلیں اُٹھا کر رخصت ہوجائیں گی مگر ہماری زمینیں ہمیشہ کے لیے بنجر ہوجائیں گی، ان کی اس بات کی تائید ڈاکٹر ظفر الطاف نے بھی کی تھی۔ مشرف حکومت کو بات سمجھ میں آگئی اور انہوں نے کمال حکمت سے بات ٹال دی۔ آج پھر وہی قضیہ درپیش ہے۔
پاکستان کے معاشی حالات بدترین ہیں، غالب حد تک یہی امکان ہے کہ مسلم لیگ (ن) سعودیوں کے ساتھ ایک مرتبہ اپنے پیار کی پینگیں بڑھانے کے لیے یہ دونوں فرمائش پوری نہ کردیں۔ ابن آدم کہتا ہے کہ ریکوڈک صرف پاکستانی قوم کی امانت ہے اگر اس میں کسی نے بھی خیانت کرنے کی کوشش کی تو وہ قومی دشمن تصور کیا جائے گا اور اس کا حشر بھی پھر شیخ مجیب جیسا ہوسکتا ہے۔ رہا سوال زمینوں کا تو حکومت ان کو زمین دے اور جو زرعی اجناس اُگائے اس کا 15 فی صد سعودی حکومت لے باقی کا پاکستان میں رہے گا اور زمین بھی بلوچستان میں دی جائے۔ چین کے اپنے مطالبات ہیں اور یو اے ای بھی سعودی عرب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہم سے یا ہماری اس فارم 47 کی حکومت سے ریکوڈک میں حصہ اور زمین مانگنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ یوں زمین آپ کی، مزدور آپ کے، پانی ہمارا لیکن فصل ان کی۔ اس سے پہلے ہمارا پڑوسی ملک عمان بھی ہمارے ملک میں 100 ایکڑ زمین پر ایک خاص قسم کی مچھلی کے فارمز بنائے بیٹھا ہے اور اب مزید 900 ایکڑ زمین درکار ہے۔ یہ ایک نئی قسم کی کالونائزیشن ہے جس کا شکار پہلے کئی افریقی ممالک ہوچکے ہیں اور اب ایسا لگ رہا ہے پاکستان کی باری ہے۔ تو قوم کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
ابن آدم کہتا ہے کہ اب تک تمام حکومتوں نے اربوں روپے اسٹیل مل پر خرچ کر دیے اس کے باوجود سونے کی یہ کان ویران پڑی ہے۔ اربوں روپے کا اسکریپ فروخت کرکے یہ ظالم حکمران کھا گئے ہیں۔ اتنے پیسے لگا کر تو ہم اس کو دوبارہ سے فعال کرکے استعمال میں لا کر نہ جانے کتنا کماتے مگر یہ ہمارے ملک کے ظالم حکمرانوں کی یہ سازش ہے جس کو کوئی بے نقاب نہیں کرنا چاہتا، اگر صرف ایک اسٹیل مل کی ایمانداری سے نجکاری کردی جائے تو یہ ملک کے تمام قرضے اتار سکتا ہے۔ اس وقت عالمی طاقتوں کی نظریں ہمارے قیمتی اثاثوں پر لگی ہوئی ہیں ہمیں ایسے ایماندار اور طاقتور حکمران کی ضرورت ہے جو قوم کے قیمتی اثاثوں کی حفاظت کرسکے۔ آج تو ان کی حکومت ہے جو ماضی میں فوج کو گالیاں دیتے رہے، ہمارے صدر نے فرمایا تھا میں فوج کی اینٹ سے اینٹ بجادوں گا، آج کے وزیر دفاع نے کہا تھا فوج ہماری ہڈیوں سے گوشت نوچ نوچ کر کھا گئی ہے، مریم نواز وزیراعلیٰ پنجاب میاں صاحب کی صاحبزادی نے فرمایا تھا کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس طرح کے بیان دینے والوں پر پابندی لگانے کے بجائے اسٹیبلشمنٹ ان کو اقتدار میں لے کر آگئی، عمران خان غلط تھا تو اس کی پارٹی سے شاہ محمود قریشی کو وزیراعظم بنادیا جاتا ان کے علاوہ بھی تحریک انصاف میں اچھے اور قابل لوگ موجود ہیں۔ جماعت اسلامی کو اوپر لایا جاسکتا تھا سب سے پہلے پاکستان کا سوچنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی خیر آگے آگے دیکھتے ہیں صبر کریں۔