زنجیر کی کڑیاں

460

اس سال بھی بارہ ربیع الاوّل آیا اور گزر گیا۔ ایسے خاص ایّام جن سے اہم پیغامات وابسطہ ہوتے ہیں وہ قومی اور علاقائی سطح پر منانے کا اہتمام کیا جاتاہے تاکہ ان ایّام کا تعلق اگر کسی شخصیت سے ہے تو اس شخصیت کے کارناموں کا ذکر کیا جائے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس قوم کے آنے والی نسلوں کی تربیت کا اہتمام کیا جاسکے۔ یقینا کائنات میں ہمارے پیارے نبیؐ سے زیادہ اہم شخصیت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی اس کا اعتراف مسلمان تو اپنے ایمان کی وجہ سے کرتے ہی ہیں مگر وہ لوگ جو دائرے اسلام سے باہر ہیں وہ بھی اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان کے ضمیر نے اس بات کو ماننے پر انہیں مجبور کردیا۔ ماضی قریب میں دنیا میں اگر ان کی مثال دی جائے تو جارج برناڈ شاہ اور مائیکل ایچھ ہارٹ کچھ اور نام آپ کے بھی ذہنوں میں ہوں گے۔ آپؐ کے کارناموں میں جو سب سے اہم کارنامہ ہے وہ یہ ہے کہ آپؐ نے خالق حقیقی کی فرمانروائی عملاً قائم کرکے دکھائی یہ وہ مقصد یا مشن ہے جس کے گرد آپؐ کی تمام جدوجہد گھومتی ہیں۔

لیز کی تھیلیوں، بسکٹ کے پیکٹ اور ٹافیوں کے لوٹنے اور لٹانے اور کہیں چنے والی بریانی کے لیے ہجوم میں آپ کے مشن کو گم کرنے کی سازش ہوئی ہے۔ کیونکہ سیدنا عیسٰیؑ کے یوم پیدائش منانے کا آغاز یتیم معصوم بچّوں کو کچھ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کے معصومانہ جذبے سے ہی ہوا تھا مگر آج ان کا پیغام اس معاشرے میں ہونے والے کرسمس کے تہوار کے دھوم دھڑکوں میں کہیں گم ہوگیا ہے ویسے بھی ربّ کائنا ت نے ان کی تعلیمات کی حفاظت کا ذمہ بھی نہیں لیا۔ مائیکل ایچھ ہارٹ نے لکھا کہ:

Of humble origins, Muhammad founded and promulgated one of the world’s great religions, and became an immensely effective political leader. Today, thirteen centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.

محمدؐ ان سو لوگوں میں پہلے نمبر پر ہیں کہ جن کی شخصیت مذہبی اور سیاسی طور پر سب سے زیادہ متاثر کن ہے۔ یعنی آپؐ نے دنیا کے سب سے زیادہ انسانوں کو متاثر کیا۔ آج تیرہ صدیاں گزر جانے کے باوجود اسی طرح سے ان کا اثر طاقتور اور وسیع ہے۔ مسند احمد میں یہ حدیث ابو امامہ باہلی سے روایت ہے کہ: آپؐ نے فرمایا: (ایک وقت آئے گا جب) اسلام کے شیرازے ایک ایک کرکے بکھرنا شروع ہوں گے تو جب کوئی شیرازہ بکھرے گا تو بجائے اس کو جوڑنے کے لوگ بقیہ شرازوں پر قناعت کرلیں گے۔ تو سب سے پہلے جو شیرازہ بکھرے گا وہ حکومت عادلہ (خلافت راشدہ، حکومت الٰہیہ) کا شیرازہ ہوگا اور آخر ی بکھر نے والا شیرازہ نماز ہوگی۔

زنجیر کی کڑیاں جب تک ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں وہ کسی بھی چیز کر اپنے حصار میں جکڑ کررکھتی ہیں۔ اگر ایک کڑی بھی ٹوٹ جائے تو اس کا حصار ختم ہوجاتا ہے بظاہر تو وہ دیکھنے میں زنجیر ہی نظر آتی ہے مگر اس کی قید سے چیزیں نکل جا تی ہیں اور ایک وقت ایسا آتاہے کہ زنجیر خط مستقیم کی طرح سیدھی ہو جاتی ہے اور کوئی چیز بھی اس کی قید میں نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز نے اسلام اور مسلمانوں کو مضبوط اور مربوط رکھا ہوا تھا وہ وہی کڑی تھی جس کا نام حکومت الٰہیہ تھا اسی کو خالق حقیقی کی فرمانروائی کا عملاً قیا م کہتے ہیں۔آپؐ کی ساری زندگی کی جدوجہد کا محور اسی نظام کا قیام تھا اسی کے لیے آپؐ کو بھیجا گیا اور اسی کی وجہ سے دنیا میں اسلام ایک فیصلہ کن قوّت تھا۔ سیاست، معاشرت، عدالت اور عبادات کے شیرازے یا کڑیاں اسی ایک کڑی سے ایک دوسرے سے مربوط تھے۔ آج بہت سے دیدہ وبینا لوگ ساری کڑیاں تلاش کرکے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں مگر اس ایک کڑی جس کا نام حکومت الٰہیہ ہے اس کو تلاش نہیں کررہے ہیں تعجب یہ ہے کہ اس کی تلاش اور اس کو جوڑنے کی جو لوگ کوشش کرتے ہیں اس پر سیاست جو کہ ایک گالی بنادی گئی ہے اس کا لیبل ان لوگوں پر لگا کر سکون کی بانسری بجائی جاتی ہے۔ معاشر ے میں لوگوں کا ایک ہجوم ہے جو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے۔ مگر وہ اس بات کو ماننے کے لیے بمشکل تیار ہوتا ہے کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام بھی دیتا ہے وہ کفر کے کھینچے ہوئے دائرے کے اندر رہ کر اعمال حسنہ بجالانے کو پسند نہیں کرتا وہ خانہ کعبہ کی دیکھ بھال اور حاجیوں کو پانی پلانے والوں سے زیادہ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے اور اپنے محبوب قرار دیتا ہے جو اللہ کی فرمانروائی کو عملاً قائم کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ وہ ظلم کی کسی شکل کا طرفدار نہیں ہے بلکہ وہ ظلم کی ہر ایک شکل کو مٹانے پر کمر بستہ رہتا ہے۔ صفاء کی چوٹی پر کلمہ طیبہ کے اقرار کا تقاضا سرداران مکّہ سمجھ گئے تھے کہ جو بندوں کی بندگی کا جما جمایا نظام ہے یہ کلمہ تو اس کے لیے موت کا پیغام ہے وہ تو ایک کائنات کے مالک کی بندگی کا پیغام ہے جو ظلم کی بے شمار شکلیں معاشرے میں موجود ہیں ان کو ایک ایک کرکے ختم کرکے دم لے گا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک عورت صنعاء یمن سے حضر موت تک سفر کرکے آئی وہ سونے کے زیورات سے لدی ہوئی تھی کعبہ کا طواف کیا اس کو کوئی لوٹتا کیا اس کو تو کسی کا خوف بھی نہ تھا۔ یاد رہے کہ خوف انسان کی اس کیفیت کا نام ہے جو جان، مال اور عزت کے لٹنے کے خطرے سے پیدا ہوتا ہے ابھی نقصان ہوا نہیں ہوتا۔ حکومت الٰہیہ کے قیام نے تو جان، مال اور عزت کو اتنا محفوظ بنادیا کہ اس بات کے لیے لاحق خطرات کی کیفیت خوف تک کو دلوں سے ختم کردیا۔

گھڑی کے پرزے الگ الگ پڑے ہوں تو کبھی نہ وہ گھڑی کہلائے گی اور نہ وقت بتانے کا اپنا فرض ادا کرسکے گی۔ بلکہ پرزے باہم مل کر مربوط ہوں گے تو اپنا مقصد پورا کرسکیں گے۔ ہمیں اس بات کو دلوں سے نکالنا ہوگا کہ محض ایک دن اس طرح سے مناکر ہم بری الذمہ ہوجائیں گے بلکہ جس طرح پوری محفل مہمان خصوصی کے لیے ہوتی ہے بلکہ اسی طرح آپؐ وجہ تخلیق کائنات ہیں سال کے تین سو پینسٹھ دن آپؐ کے لیے ہیں اور ہمارے لیے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اپنی محبتوں اور عقیدتوں کو صحیح سمت دے کر اسی مشن کو پورا کرنے کی جدوجہد کریں جس کا حکم آپؐ کے ربّ نے دیا اور آپؐ نے کما حقہ دنیا میں مکمل کرکے دکھایا۔