مشہور کہاوت ہے کہ ’’زبان خلق کو نقارئہ خدا سمجھو‘‘ اور وطن عزیز میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ ملک میں قانون اور انصاف ناپید ہوجانے کی وجہ سے ہم اس دورِ جدید اور ترقی یافتہ سائنسی عہد میں بھی ایک طرح سے جنگل کے معاشرے میں رہ رہے ہیں۔ جہاں بظاہر حکومت بھی ہے اور سرکاری ادارے بھی، لیکن یہ صرف نام کی حد تک ہیں اور حکومت کی رِٹ یا عملداری یکسر ختم ہوچکی ہے۔ ہمارے ملک میں آئے دن ایسے دل دہلا دینے والے سانحات جنم لیتے رہتے ہیں جن کے بارے میں لکھتے ہوئے بھی دل اور قلم کانپنے لگتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کا محاورہ سن تو رکھا تھا لیکن اس کا عملی طور پر اطلاق ہمیں وطن ِ عزیز میں ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ملک کے مقتدر ادارے اپنے اصل فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے حکومتیں گرانے اور بنانے کے شُغل میں اُلجھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آج پاکستان کی معیشت اپنے آخری دموں پر ہے۔ صوبہ سندھ اس وقت بدامنی، بدعنوانی، بدانتظامی اور بد حکومتی کا بدنما مرکز بنا ہوا ہے اور اس کی یہ حالت زار گزشتہ ایک طویل عرصے سے ہے۔ سندھ پر پی پی پی کی حکومت کو لگ بھگ 18 برس ہونے کو ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی بھی شعبے میں اتنے عرصے میں کوئی معمولی سی تبدیلی بھی دیکھنے میں آسکی ہو، بلکہ اس کے برعکس صورتِ حال روز بروز دگرگوں ہی ہوتی چلی جارہی ہے۔ اہل ِ سندھ بھی حیران اور پریشان ہیں کہ ایسے میں آخر کس برتے پر صدر آصف علی زرداری اپنے فرزند ارجمند بلاول زرداری کو مستقبل میں وزیراعظم پاکستان کے منصب جلیلہ پر دیکھنے کی اپنے دل میں آرزوئیں پالے ہوئے ہیں۔ اس پر مستزاد ’’بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں بھی سبحان اللہ‘‘ کے مصداق بلاول زرداری بھی سندھ میں اپنی حکومت کی عدم کارکردگی کو مثالی بنانے کے بجائے اسی سہانے سپنے میں کھوئے رہتے ہیں جس کا خواب ان کے والد گرامی نے ان کے ہوش سنبھالنے کے بعد سے انہیں دکھا رکھا ہے، یعنی مستقبل میں وزیراعظم پاکستان بننے کا۔
اب یہ کوئی راز ہے اور نہ ہی انکشاف کہ صوبہ سندھ اس وقت بدامنی سمیت جتنی بھی بدنما خرابیوں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے اس کے پس پردہ حکمران طبقے کے منتخب عوامی نمائندے شامل ہیں۔ صوبہ سندھ جو گزشتہ کئی دہائیوں سے بدامنی میں بہت برے طریقے سے مبتلا ہے اور ہر دن بے شمار جرائم کے ہولناک واقعات پیش آتے رہتے ہیں وہاں اب یہ ایک نیا مجرمانہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ پولیو ورکرز پر بھی مسلسل حملے ہورہے ہیں۔ ماضی میں خواتین پولیو ورکرز کو اغوا کرنے کے بعد ان سے زیادتی کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جنہیں قبائلی اور سرداری نظام کی وجہ سے بذریعہ ’’رجوانی یا جرگہ‘‘ کے تحت جبراً منظر عام پر آنے سے روک دیا گیا اور متاثرہ خواتین کو زبردستی خود سے ظلم روا رکھنے والوں کے ساتھ مصالحت اور مفاہمت کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ وقتی یا عارضی طور پر تو شورو غوغا ہوا لیکن پھر متاثرہ خواتین کے ورثا کو تھوڑی بہت رقم یا معاوضہ ظلم ڈھانے والوں سے دلوا کر سارے معاملے ہی کو رفع دفع کردیا گیا۔ سندھ میں ماضی میں کئی بار خواتین پولیو ورکرز پر جسمانی تشدد بھی کیا جاتا رہا ہے، یہاں تک کہ انہیں گولیاں مار کر زخمی بھی کیا گیا ہے۔ پولیو عملے کی تکلیف کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ اپنی رودادِ غم بذریعہ میڈیا بتانے کی کوشش کیا کرتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر مرتبہ پولیو کے خاتمے کے لیے چلائی جانے والی مہم کے موقع پر مرد اور خواتین پولیو ورکرز عدم سہولت کے ساتھ بے حد نامساعد اور پرخطر حالات میں بغیر مناسب حفاظتی اقدامات کے سندھ کے گوٹھوں، قصبات اور شہروں میں اپنے فرائض کی ادائیگی بڑی جانفشانی سے کرتے ہیں جس کے بدلے میں انہیں خاطر خواہ معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو اس قطعی کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ صوبہ سندھ میں مرد اور خواتین پولیو ورکرز دور افتادہ اور پُرخطر علاقوں میں اپنی جان پر کھیل کر اپنے فرائض کی بجا آوری کیا کرتے ہیں۔
سندھ کے دیگر اضلاع کی طرح جیکب آباد بھی عرصہ دراز سے شدید ترین بدامنی کا شکار ہے۔ جہاں کسی کی جان، مال، عزت اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں 11 ستمبر کو جیکب آباد کی تحصیل گڑھی خیرو کے ایک گائوں اللہ بخش جکھرانی میں انسداد پولیو مہم کے دوران تین مسلح افراد نے زبردستی جمیلہ نامی خاتون پولیو ورکر کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ضلعی انتظامیہ نے یہ خبر منظر عام پر آنے کے بعد پوری کوشش کی کہ متاثرہ خاتون اس سانحہ کو محض اپنے ساتھ ایک ڈکیتی کا ناکام اور معمولی سا واقعہ ہی قرار دے اور اوائل میں پولیس کے سخت دبائو کی وجہ سے اس متاثرہ خاتون نے میڈیا سے دوران گفتگو میں کہا کہ اس کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس سے صرف موبائل اور رقم چھیننے ہی کی ملزمان نے ناکام کوشش کی ہے لیکن سخت عوامی احتجاج اور پھر جیکب آباد سے تعلق رکھنے والے سابق نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو، ان کی ہمشیرہ ملیحہ سومرو کے سرگرم اور فعال ہونے کی بنا پر متاثرہ خاتون کو ہر ممکن قانونی امداد کی یقین دہانی کے بعد بالآخر اس نے یہ بات تسلیم کرلی کہ اسے دراصل پولیس کے مقامی افسران نے سخت دبائو کے بعد مذکورہ بیان دینے کے لیے مجبور کیا تھا کہ اس کے ساتھ مسلح افراد نے زیادتی نہیں کی۔ صرف ڈکیتی کی ناکام واردات ہی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ درحقیقت مسلح افراد نے نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ زیادتی کی ہے بلکہ اس واقعے کی ویڈیو بھی بنائی گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے ساتھ بہیمانہ تشدد اور لوٹ مار بھی ہوئی ہے۔
مقامی سیشن کورٹ میں جج کے سامنے بھی متاثرہ خاتون نے یہی کہا ہے کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا ہے۔ سیشن کورٹ میں خاتون کے اس بیان کے بعد کہ اس کے ساتھ ریپ بھی ہوا ہے تو ایف آئی آر میں سیکشن 375 کو بھی شامل کردیا گیا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ میں یہ سیکشن ریپ سے متعلق ہے۔ پولیس نے شروع میں بااثر افراد کے کہنے پر صرف ڈکیتی ہی کا مقدمہ درج کیا تھا۔ پولیس نے اس واقعے کے مرکزی ملزم احمد جکھرانی اور دیگر ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ دریں اثنا جیکب آباد کی عدالت نے انسداد پولیو مہم کے دوران متاثرہ خاتون کے شوہر اور دیور سمیت تمام ملزمان کو 11 روز کے لیے جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ شوہر اور دیور کو اس لیے کہ انہوں نے متاثرہ خاتون کو مذکورہ سانحے کے بعد جان سے مارنے کی دھمکی یہ کہہ کر دی تھی کہ وہ اب اس واقعے کے بعد کیوں کہ ’’کاری‘‘ ہوچکی ہے، لہٰذا ہم تمہیں بطور سزا کے قتل کردیں گے۔ حکومت سندھ نے بھی مذکورہ واقعے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے غفلت، غیر ذمے داری اور نااہلی کا ارتکاب کرنے پر ڈی سی جیکب آباد ظہور مری، ایس ایس پی سمیر نور چنا کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے اور شنید ہے کہ ڈی ایچ او جیکب آباد ڈاکٹر ارشاد سرکی کو بھی، عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ سانحے کے ذمے داران کو محض ان کے عہدوں سے ہٹا دینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ انہیں سخت سزائیں بھی دی جانی چاہئیں۔ دریں اثنا جیکب آباد سے منتخب ایم این اے اعجاز جکھرانی نے بھی متاثرہ خاتون کے گھر جا کر اسے اجرک اوڑھائی اور دس لاکھ روپے کا چیک بھی پیش کیا ہے۔ ایم پی اے جیکب آباد شیر محمد مغیری نے متاثرہ خاتون کے لیے ماہانہ 20 ہزار روپے وظیفے اور سرکاری ملازمت دلانے کا اعلان کیا ہے جسے اہل علاقہ ناکافی قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ضلع بھر سے شدید بدامنی کے خاتمے کے لیے منتخب عوامی نمائندے اپنا قرار واقعی کردار ادا کریں اور وہ پوائنٹ اسکورنگ کرنے کے بجائے عملاً ٹھوس اقدامات کریں۔ ابھی اس سانحے کی بازگشت جاری ہی تھی کہ کل کے سندھی اخبارات میں میہڑ ضلع دادو کی رہائشی ایک خاتون پولیو ورکر کے ساتھ اسے اغوا کرنے کے بعد دو دن تک خضدار بلوچستان میں زیادتی کی خبر شائع ہوئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جارہے ہیں اور ہماری حکومت کہاں ہے؟