پاکستان کا قرض تے عام بندہ دی سوچ

335

وطن عزیز کے قرضوں کے حوالے سے ڈیرہ پر بیٹھے دوست احباب میں گپ شپ چل رہی تھی کہ اچانک کھیتوں میں کام کرنے والا ہمارا چٹا ان پڑھ ملازم بول اٹھا کہنے لگا ’’پا جی اک گل تے دسو…‘‘

بھائی جان ایک بات تو بتائیں جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں اس وقت سے سنتے چلے آ رہے ہیں ہمارے ملک پر پہلے اتنا قرضہ تھا اب اتنا ہو گیا ہے یہ کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتا کہ قرضہ لے کر ہمارے کرتا دھرتوں نے کیا کیا ہے۔ کس چیز کے لیے قرضہ لیا ہے اس قرض سے ہم نے بنایا کیا ہے، کہنے لگا بھائی جان میں نے آپ سے قرضہ لیا ہوا ہے، مجھ سے پوچھیں میں نے قرض کا کیا کیا ہے، بیٹی کی شادی کی ہے، ایک کمرہ بنایا ہے اور ایک گائے لی ہے۔ آدھی رقم محنت مزدوری کر کے واپس کر چکا ہوں بقیہ رقم بھی چند سال میں واپس ہو جائے گی۔ اب آپ بتائیں پاکستان نے قرضہ لے کر کیا کیا، کوئی شادی کی، کوئی گھر بنایا، کوئی مال خریدا۔

محفل میں بیٹھا اک دوست بولا بچوں کی تعلیم پر، صحت پر، ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا، ڈیم بنائے، بجلی دی، ملک کے دفاع پر خرچ کیا وغیرہ وغیرہ

وہ بولا بس رہنے دیں حضور، میں مزدور ہو کر اپنے بچے کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھا رہا ہوں، بچی نے میٹرک میں اچھے نمبر لیے آگے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے پڑھا نہ سکا، گھر میں کوئی بیماری آ جائے پرائیویٹ اسپتال جانا پڑتا ہے، رہا ترقیاتی کاموں کا حال تو مجھے بتا دیں کوئی ایک سڑک بھی صحیح سلامت ہے، کوڑا کرکٹ بازاروں میں، گندی نالیوں کا پانی سڑکوں پر، ڈیم بنائے ہیں بجلی دی ہے تو اس کی قیمت ہم ہر ماہ بلوں کی صورت پتا نہیں کون کون سے ٹیکسوں کے ساتھ ادا کرتے آ رہے ہیں، پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل جیسے منافع بخش اداروں کا بیڑہ غرق کر چکے، زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتیں بربادی کے دہانے پر ہیں، اس نے کہا کہ جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ انصاف عام بندہ کی پہنچ سے کوسوں دور ہے، اگر کوئی خوش قسمت حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی پانچ لاکھ کی بھینس چوری ہو جائے تو وہ پولیس اور کھوجیوں پر دو تین لاکھ خرچ کر کے اپنی مدد آپ چوروں اور بھینس کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو بھی جائے تو پولیس اور چور اسے ڈیڑھ دو لاکھ کی کوئی وگویں (متبادل) بھینس دے دیتے ہیں اور وہ اسی کو اپنی کامیابی سمجھ بیٹھتا ہے۔ ویسے آج کل تو عدلیہ کا حال یہ ہے کہ کیس چلنے سے پہلے ہی ہر ایک کو پتا ہوتا ہے کہ اس عدالت نے کیا فیصلہ دینا ہے، باقی جہاں تک دفاع کا تعلق ہے آدھے ملک کے ساتھ سیاچن بھی ہتھیا چکے ہیں، باقی مانندہ بھی کچے پکے و پہاڑی ڈاکوئوں کے حوالے ہے، حال ہی میں ہمارے گاؤں کا اک نوجوان کچے کے ڈاکوؤں نے دس لاکھ روپے لے کر چھوڑا ہے۔

ہم چند دوست اس کی باتیں سن کر یہ کہنے پر مجبور تھے کہ جو نام نہاد آزاد میڈیا پر وزراء و حکومتی کارندوں کے ٹاک شوز میں آئے روز قوم کو بھاشن سنائے جاتے ہیں قوم اس سے کہیں آگے کا سوچتی ہے۔ حقیقت ہے کہ ’’مختاریا گل ہن ودھ گئی آ…‘‘

سچی بات ہے جب سے ہوش سنبھالا ہے ہر اک کی زبان سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ پاکستان کا قرض روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر حکومت سابقہ حکومت کو اس کا ذمے دار ٹھیراتی ہے اور پھر مزید قرض لینا شروع کر دیتی ہے۔ زیادہ تر اقتدار پر براجمان پاک فوج کے سربراہان رہے ہیں، یا پھر اقتدار کے ایوانوں میں پیپلزپارٹی بھٹو، زرداری و مسلم لیگ ن، ج، ق اور کوئی ساڑھے تین سال کے لگ بھگ تحریک انصاف۔

جو بھی اقتدار کے ایوانوں میں براجمان رہا اس نے پچھلوں کو برا اور خود کو عقل کل ہی سمجھا، وطن عزیز قرض کی دلدل سے باہر کیا نکلتا، حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ ہمسایہ ازلی دشمن بھارت کا سربراہ بر سر عام کہتا پھرتا ہے کہ ہمیں اب کسی کا کوئی خوف نہیں ہمارا سب سے بڑا دشمن جو ہاتھوں میں پٹاخے اٹھائے ہمیں ڈرایا کرتا تھا آج پوری دنیا میں کشکول اٹھائے گھوم رہا ہے کوئی اسے خیرات ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

آپ حیران ہوں گے یہ پڑھ کر کے پاکستان کے ذمے جون 2024ء تک کا قرضہ 71 کھرب روپے ہے۔ کوئی دانشور بتا سکتا ہے کہ اتنی رقم قرضہ لے کر ہم نے بنایا کیا ہے۔ کہاں خرچ کیا ہے اوّل تو لیا ہی کیوں ہے۔ ملک بنانے والے کو تو ایمبولینس بھی نصیب نہ ہوئی بلکہ وہ تو اپنی ساری جائداد وطن کے لیے وقف کر گئے، پہلے وزیر اعظم کی تو بنیان اور جرابیں بھی پھٹی ہوئی نکلیں جبکہ وہ تھا بھی نواب اور وطن عزیز سے ایک مرلہ کے کلیم کا روادار نہیں۔

لگتا ہے ہمارے حکمرانوں کی حالت اس زمیندار جیسی ہے جو بینک سے سود پر قرض لے کر ٹریکٹر خریدتا ہے اور پھر اس ٹریکٹر کی کمائی کے ذریعے رقم واپس کرنے کے بجائے ٹریکٹر اصل قیمت سے کہیں کم فروخت کرتا ہے اور اس رقم سے چند دنوں تک خوب عیاشی کرتا ہے، بعد میں زمین و زیورات بیچ کر یا گروی رکھ کر بینک کی رقم ادا کرتا رہتا ہے پتا تب چلتا ایک ٹریکٹر کی جگہ تین ٹریکٹروں کی رقم ادا کر چکا ہے، مگر وہ تو سب سود تھا، اصل زر تو ابھی باقی ہے۔