کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید)سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے ایڈہاک ججزکا تقرر متنازع ہوگیا‘ عدالت عظمیٰ میں اہم مقدمات زیر التوا ہوں تو ایڈہاک ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں‘ قانون میں مقصد نکالنے کی گنجائش نہیں ہو تی‘1955ء سے ایڈہاک ججزکی تعیناتی ہو رہی ہے‘ جسٹس طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم کا ایڈہاک جج کے طور پر تقرر وقت کی ضرورت تھی، اگر سیاسی مقاصد ہیں تو اس کی مذمت کی جانی چاہیے۔ان خیالات کا اظہار معروف قانون دان ڈاکٹر عابد شیروانی ایڈووکیٹ، عدالت عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مشیر عالم اورسندھ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈجج جسٹس شائق عثمانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عدالت عظمیٰ میں ایڈہاک ججوں کے تقرر کا مقصد مرضی کے فیصلے حاصل کرنا ہے؟‘‘ عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس سوال کا جواب دینے سے قبل یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ججوں کے تقرر کے سلسلے میں قانون اور دستور کیا کہتا ہے‘ دستورِ اسلامی جمہوری پاکستان کے آرٹیکل 175 اے میں عدالت عظمیٰکے ریگولر ججوں کت تقرر کے حوالے سے ایک پیچیدہ اور تفصیلی طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کی 17 کلازز ہیں اور کئی کلازز کی ذیلی کلازز بھی موجود ہیں‘ اس کے علاوہ دستورِ پاکستان کے آرٹیکل 182 میں ایڈہاک ججوں کے تقرر کے لیے ایک سادہ سا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے کہ اگر کسی بھی وجہ سے موجودہ ججوں کے کورم کو برقرار رکھنا ممکن نہ ہو یا کسی اور وجہ سے ججوں کی تعداد میں عارضی طور پر اضافہ کرنا مقصود ہو تو چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کا یہ اختیار ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن کے مشورے اور صدرِ پاکستان کی منظوری کے ساتھ کسی ایسے جج کو جو اپنے عہدے پر موجود ہے یا اسے عدالت عظمیٰ کے جج کا عہدہ چھوڑے ہوئے 3 سال کا عرصہ نہ گزرا ہو، یا صدرِ پاکستان کی منظوری کے ساتھ کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ایسے جج کے بارے میں تجویز طلب کر سکتا ہے جسے خاص مدت کے لیے عدالت عظمیٰ کے ایڈہاک جج کی حیثیت سے مقرر کیا جائے۔ حال ہی میں صدرِ پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 182 کے تحت جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کو ایک سال کی مدت کے لیے ایڈہاک ججز مقرر کیا ہے جس پر اخبارات میں کافی گفتگو ہو رہی ہے جب کہ میرا خیال یہ ہے کہ چونکہ عدالت عظمیٰ میں کئی فیصلے کورم کے پورے نہ ہونے کی وجہ سے التوا کا شکار تھے اس لیے ان ایڈہاک ججز کا تقرر وقت کی ضرورت تھی لیکن اگر ایسا عمل کسی خاص فرد یا پارٹی کے کیسز پر ناجائز طور سے اثر انداز ہونے کے لیے کیا گیا ہے تو اس کی مذمت کی جانی چاہیے مگر یہ فیصلہ تو وقت ہی کر سکتا ہے کہ وقت کی اہم ضرورت کے تحت کی جانے والی تقرری کیا صرف انصاف کے تقاضے پورے کرے گی یا اس سے اربابِ اقتدار کو کچھ اور ہی مطلوب ہے۔ مشیر عالم نے کہا کہ جس بات کی اجازت دستور دے رہا ہے اس کا کو ئی اور مقصد نہیں نکالاجاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود میں نے ایڈہاک جج بننے سے معذرت کر لی تھی۔جسٹس ریٹائرڈ مشیر عالم نے بتایا کہ انہوں نے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا تھا کہ ’اللہ نے مجھے میری حیثیت سے زیادہ عزت دی، ایڈہاک ججز نامزدگی کے بعد سوشل میڈیا پر جو مہم شروع کی گئی اس سے شدید مایوسی ہوئی ہے‘ موجودہ حالات میں بطور ایڈہاک جج کام کرنے سے معذرت چاہتا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ہائی کورٹ یا عدالت عظمیٰ کے ججز کسی اہم مقدمے کی سماعت کے باعث دیگر مقدمات کو سننے سے قاصر ہوں یا اہم مقدمے زیر التوا ہوں، اس صورت میں ایڈہاک جج کی خدمات لی جاتی ہیں‘ ان کے اختیارات ہائی کورٹ یا عدالت عظمیٰ کے جج کے برابر ہی ہوتے ہیں‘ آرٹیکل181 کے تحت ’ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کو بھی عارضی طور پر عدالت عظمیٰ میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔ عارضی جج تب تک تعینات رہتے ہیں جب تک صدر مملکت اپنا حکم واپس نہ لے لیں۔ شائق عثمانی نے کہا کہ قانون میں مقصد نکالنے کی گنجائش نہیں ہو تی ہے‘ دستور اور قانون جس بات کی اجازت دیتا ہے وہ کر نے میں رکاوٹ نہیں ہو نی چاہیے‘ ایڈہاک ججز کی تعیناتی پاکستان کی عدالتی تاریخ کا حصہ ہے مگر چونکہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت زیادہ ہے تو اس وجہ سے یہ معاملہ ایک تنازع کی صورت اختیار کر گیا ہے مگر یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کسی جج کی تعیناتی ایڈہاک بنیاد پر ہوئی ہے‘ عدالت عظمیٰ کی ویب سائٹ کے مطابق1955ء سے 2016ء تک مجموعی طور پر 22 ججز کو عدالت عظمیٰ میں بطور ایڈہاک جج تعینات کیا گیا ہے۔