آزادی رائے

500

علامہ اقبال نے ’’آزادی رائے کو ابلیس کی اولاد کہا ہے اور ان کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن آزادی رائے کے اس زمانے میں علامہ اقبال کی یہ رائے بھی آزادی رائے کے متوالوں کے لیے قابل توجہ اور قابل قبول نہیں رہی۔ دراصل ہمیں علامہ اقبال بھی وہی عزیز ہیں جو ہماری رائے کے مطابق ہوں۔ وہ علامہ جو ہماری رائے کے دائرے سے باہر ہیں وہ رجعت پسند اور بنیاد پرست علامہ ہیں اور ہم میں سے بہت سے دن رات ان علامہ کی ’’اصلاح‘‘ میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن علامہ اقبال کی رائے سے اختلاف ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ رائے اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

علامہ نے آزادی رائے کو ابلیس سے جوڑا ہے تو خواہ مخواہ ایسا نہیں کیا۔ اس کائنات میں ابلیس وہ پہلا ذی روح ہے جس نے آزادی رائے کا مظاہرہ کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ابلیس کی آزادی رائے میں خامی کیا ہے؟ یہ قصہ تو آپ کے علم میں ہے ہی کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور ابلیس کو حکم دیا کہ وہ آدم کے آگے جھک جائیں۔ فرشتے اس حکم کو مانتے ہوئے آدم کے آگے سجدہ ریز ہو گئے مگر ابلیس نے انکار کر دیا۔ ابلیس کی پہلی گمراہی تو یہی ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کیا اور اس کی دوسری گمراہی یہ ہے کہ وہ اپنی گمراہی پر خدا کے سامنے ’’دلیل‘‘ لے کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ آدم کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور مجھے آگ سے خلق کیا گیا ہے اور آگ مٹی سے بہتر ہے۔ اس دلیل سے مقدمہ یہ بنا کر کمتر بہتر کو سجدہ کرتا ہے لیکن یہاں بظاہر کمتر کو بہتر کر کے مسجود قرار دیا جارہا تھا۔

اگر چہ ابلیس کا یہ مقدمہ بھی غلط ہے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے، اس لیے کہ عقل اور دلائل سے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ مٹی آگ سے بہتر ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ نہیں ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ابلیس نے حکم خداوندی یا امر الٰہی پر ’’عنصر‘‘ کو فوقیت دے دی۔ حالانکہ اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ امر ہر شے پر فوقیت رکھتا ہے۔

دراصل ابلیس یہ سمجھنے میں بری طرح ناکام رہا کہ کوئی عنصر کسی دوسرے عنصر سے فی نفسہٖ بہتر نہیں ہے۔ کوئی چیز اگر کسی شے سے بہتر ہے تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بہتر قرار دیا ہے۔ اس کے سوا کسی چیز کی بہتری کا کوئی اور جواز نہیں ہے۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بہتر قرار دیا تو مخلوق کے لیے لازمی تھا کہ وہ اسے بہتر سمجھے اور اسے سجدہ کرے لیکن ابلیس یہ بات سمجھا ہی نہیں اور سمجھا اس لیے نہیں کہ اس نے مکمل طور پر عقل پر انحصار کر لیا اور تکبر میں مبتلا ہو گیا۔ صرف عقل پر انحصار تکبر اور خرابی کے سوا کسی کو بھی کہیں پہنچا ہی نہیں سکتا۔

اس سلسلے میں مولانا ایوب دہلویؒ نے ایک اہم اور دلچسپ توجیہ دلیل کے طور پر پیش کی ہے۔ مولانا نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ کہا اور کائنات وجود میں آگئی اور ساری کائنات امر کُن کی تابع ہے۔ کسی چیز کی کیا مجال ہے کہ وہ اس امر سے رتی برابر بھی انحراف کرے۔ تو گویا پہلے امر ہے اور پھر کائنات ہے اور مولانا کے بقول عقل ایسی چیز ہے کہ جس کا انسان اکتساب کرتا ہے۔ ورنہ بچے میں اچھے برے کی تمیز نہیں ہوتی۔ اس اعتبار سے عقل کا ظہور کائنات کے ظہور کے بعد کا ہے اور یہ ظہور کائنات کا تابع ہے۔ اس طرح امر کائنات اور عقل کی ترتیب میں عقل کا تیسرا نمبر ہو گیا اور لازم ہے کہ مؤخر اول کے تابع ہو لیکن مولانا کے بقول ابلیس نے یہ ترتیب ہی اُلٹ دی، اس نے عقل کو امر پر بھی فوقیت دے دی۔ حالانکہ عقل تو کائنات کے بھی بعد کی چیز ہے۔

بہر حال اصل بات یہی ہے کہ اصل چیز حکم الٰہی ہے۔ یعنی کوئی چیز صرف اس لیے اچھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اچھا کہا ہے اور کوئی بھی چیز محض اس لیے بری ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے برا کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ سچ اچھی چیز ہے اور جھوٹ بری چیز لیکن اگر اللہ تعالیٰ کہے کہ جھوٹ اچھی چیز ہے تو پھر جھوٹ یقینا اچھا ہو گا۔ خیر اس لیے خیر ہے کہ اسے خیر کہا گیا ہے اور شر اس لیے شر ہے کہ اسے شر کہا گیا ہے۔ ورنہ خیر میں نہ ایسا کوئی خیر ہے اور نہ شر میں ایسا کوئی شر۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ سجدہ صرف مجھ ہی کو روا ہے۔ یعنی سجدہ نبی آخر الزماںؐ کو بھی روا نہیں ہے جن پر خود اللہ تعالیٰ بھی سلام بھیجتا ہے۔ لیکن اس نے فرشتوں اور جنات سے کہا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ۔ اب جس نے سجدہ نہیں کیا وہی مارا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ اور بہتان کی سخت مذمت کی ہے لیکن سیدنا یوسفؑ کے چھوٹے بھائی بن یامین کو سیدنا یوسفؑ کے پاس ٹھیرانے کا قصہ دیکھیے۔ سیدنا یوسفؑ نے بن یامین کے سامان میں خود محل کی اشیا رکھوادیں اور چوری کے الزام کے تحت بن یامین کو سیدنا یوسفؑ کے پاس روک لیا گیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ یہ کام تو ہم نے خود یوسفؑ کو سکھایا۔ تو بات یہ ہے کہ درست وہی ہے جسے اللہ نے درست کہہ دیا۔

مگر اب ہمارے درمیان ایسے صاحبان علم پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم تو اسلام کو عقل سے سمجھیں گے۔ لیکن جناب اگر مذہب کو عقل سے سمجھا جا سکتا تو پھر وحی اور صاحب وحی کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ لیکن وحی بھیجی گئی اور صاحب وحی کے ذریعے بھیجی گئی، اس لیے کہ عقل درست کام کرنے کے لیے وحی کی روشنی کی محتاج ہے۔ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں مگر انہیں دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہے۔ گھپ اندھیرے میں وہ کچھ نہیں دیکھ سکتیں۔ عقل کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وحی کے بغیر وہ آنکھیں رکھنے کے باوجود نابینا ہے۔ چنانچہ آزادی رائے وحی اور صاحب وحی پر فوقیت کا دوسرا نام ہے اور یہ سب سے بڑی گمراہی ہے۔

کتب میں خواجہ معین الدین چشتی اور ایک ہندو یوگی کا مناظرہ رپورٹ ہوا ہے۔ خواجہ صاحب نے مناظرے کے اختتام پر یوگی سے کہا کہ مراقب ہو کر میرے اور اپنے نفس کو دیکھ۔ اس نے ایسا ہی کیا اور دیکھا کہ خواجہ صاحب کا نفس سورج کی طرح روشن ہے اور اس کے اپنے نفس کی بھی یہی کیفیت ہے مگر اس کے نفس کی روشنی کے مابین ایک سیاہ دھبہ ہے۔ خواجہ صاحب نے اس سے کہا کہ رسول اللہؐ پر ایمان لے آ۔ اس نے کہا کہ لے تو آؤں مگر ’’طبیعت‘‘ آمادہ نہیں۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ تو نے یہ روحانی ترقی کیسے حاصل کی؟ اس نے کہا کہ یہ چالیس سال کی نفس کشی کا حاصل ہے۔ خواجہ صاحب نے فرمایا اب بھی یہی کر۔ وہ ایک لمحے میں قائل ہو گیا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔ لیکن اگر وہ عصبیت کے زیر اثر اپنی ذاتی رائے پر اصرار کرتا رہتا اور اْس لمحے بھی نفس کشی پر آمادہ نہ ہوتا؟؟ مسئلہ یہی ہے مجرد عقل اور اس کی پیداوار آزادی رائے انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔ چنانچہ سلامتی کا راستہ صرف ایک ہے۔ اپنی رائے کو قرآن وسنت کے مطابق کر لیا جائے اور قرآن و سنت کو اپنی رائے کے تابع کرنے کی ضلالت سے محفوظ رہا جائے۔