اسلام آباد: حکومت کی جانب سے حال ہی میں منظور شدہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ترمیمی آرڈیننس 2024 کو وکلاء برادری نے عدلیہ کی آزادی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اسے “غیر مناسب قانون” قرار دیا ہے۔
پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے سینئر وکلاء نے اس آرڈیننس کے نفاذ پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ یہ آرڈیننس صدر آصف علی زرداری نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد جمعے کو دستخط کر کے قانون بنایا۔
آرڈیننس میں شامل نئی شق کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کمیٹی کو مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جس میں چیف جسٹس، سب سے سینئر جج اور چیف جسٹس کی نامزد کردہ جج شامل ہوں گے۔
آرڈیننس میں ایکٹ کے سیکشن 3 میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت ہر مقدمہ اپنی باری پر سنا جائے گا اور اس کے علاوہ ترجیحی سماعت کے لیے ٹھوس وجوہات فراہم کرنا لازم ہوگا۔
مزید یہ کہ ہر مقدمہ اور اپیل کی ریکارڈنگ کی جائے گی اور اس کی نقل عوامی دسترس میں ہوگی۔
پی بی سی کے نائب صدر فاروق ایچ نائیک نے آرڈیننس کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بنچ تشکیل کے جمہوری عمل کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ قانون عدلیہ کی آزادی اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے نقصان دہ ہے، جنہیں آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
ایس سی بی اے کے صدر محمد شہزاد شوکت اور سیکریٹری سید علی عمران نے بھی آرڈیننس کے اجرا پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ قانون سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی منسوخی کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔
وکلاء نے خبردار کیا کہ اگر پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ادارے ایک دوسرے سے ٹکرا گئے تو اس سے جمہوریت اور آئینی بالادستی کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے، جس کے نتائج پورے نظام کے لیے خطرناک ہوں گے۔