بھارت میں وقف ایکٹ میں 40 ترامیم سے مسلمانوں کی املاک کو ہڑپ کر نے کی تیاری

69

نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) مودی کی مسلمان مخالف مہم کی ایک اور کڑی منظر عام پر آگئی۔ حال ہی میں مودی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے مختص محدود وسائل کو چھیننے کی سازش سامنے آئی۔ مودی حکومت نے بھارتی قانون کے وقف ایکٹ میں 40 نئی ترامیم کرنے کا اعلان کیا۔ وقف ایکٹ ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ذریعے صاحب استطاعت مسلمان زمین اور دیگر اثاثے خیرات کے نام پر وقف کرتے ہیں۔ وقف کی سرپرستی مسلم پارلیمان، مسلم ممبران برائے ریاستی بار کونسل اور نامور عالم دین کرتے ہیں۔وقف ایکٹ اس امر کی یقین دہانی بھی کرتا ہے کہ وقف کی گئی زمینوں اور دیگر املاک مثلاً مساجد اور تعلیمی اداروں کی منتقلی، تعمیر اور فعالی قانون کے مطابق ہو۔ حال ہی میں ہوم منسٹر امت شاہ نے اعلان کیا کہ جلد ہی وقف ایکٹ ترمیمی بل 2024ء کو پارلیمنٹ میں منظور کیا جائے گا۔اس سے قبل مودی حکومت نے وقف ایکٹ کی ترامیم لوک سبھا میں پیش کرنے کے بجائے میڈیا کے ذریعے عوام اور پارلیمان تک پہنچائیں مگر اپوزیشن کی مخالفت پر بل لوک سبھا میں پیش کیا گیا۔ لوک سبھا میں اجلاس کے دوران حکومت کی جانب سے وقف ترمیمی بل2024ء پیش کیا گیا جس کے خلاف نہ صرف اپوزیشن بلکہ تمام بھارتی انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز اٹھائی ہے۔ قائدین اور علما نے وقف ترمیمی بل کو مودی سرکار کی جانب سے ہڑپ کرنے کی سازش قرار دے دی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان قاسم رسول الیاس نے بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کی وقف جائداد کو ہڑپ کرنے کی کوشش ہے اور بھارتی آئین پر حملہ ہے۔امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ وقف ترمیمی بل 2024ء مسلمانوں کے خلاف ہے اور وقف املاک کو مودی اور اس کی حکومت کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔وقف کے ذریعے ان گھروں اور املاک کی بھی سرپرستی کی جاتی ہے جو برصغیر کی تقسیم کے دوران مسلمان چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے۔ مودی سرکار کی جانب سے وقف ایکٹ میں پیش کردہ ترامیم کے تحت وقف کے پاس موجود تمام اختیارات چھین لیے جائیں گے اور مسلمانوں کی خصوصی املاک مثلاً مساجد، مدارس اور درگاہوں کو شہید کرنے کی بھی کھلی چھوٹ مل جائے گی۔نائب امیر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے بتایا کہ اس بل کے ذریعے بورڈ میں غیر مسلموں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور پورا کا پورا اختیار کلکٹر کو دینے کی تجویز رکھی گئی ہے۔