الیکشن مہم کے دوران چیئرمین بزنس مین گروپ زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ ملک کے خراب معاشی حالات کے ذمہ داروفاقی وزیرِ خزانہ ہیں، ان کو صورتحال پر غور کرنا چاہییے ۔کراچی چیمبر کے نو منتخب بی ایم جی کے صدر جاوید بلوانی کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ تو وزیر اعظم کی بھی نہیں سنتے،معاشی مسائل اتنے خطر ناک ہیں کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھے
زبیر موتی والا نے کہا کہ وزیرِ خزانہ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں،آئی ایم ایف سے مذاکرات وزیر خزانہ کررہے ہیں، ہم نے تاجر دوست اسکیم کے حوالے سے وزیرتجارت سے بات کی ہے،تاجر دوست اسکیم میں 60 ہزار نہیں ماہانہ 5 ہزار روپے کی تجویز دی ہے،بڑے دکانوں پر پی او ایس لاگو ہوا ہے، اب اس حوالے سے دو کیٹگریز بنیں گی،ایک کیٹگری پہلے سے ہی رجسٹرڈ ہے،درمیانے درجے کے تاجروں کیلئے مناسب ٹیکس رکھا جائے گا،رجسٹرڈ بڑے اسٹورز مقرر شرح کے تناسب سے ٹیکس ادا کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کی خراب معاشی صورتحال پر غور کرنا وزیر خزانہ کا ہی کام ہے، تاجر دوست اسکیم پر جو دکانداروں پر ایڈوانس ٹیکس لگایا گیا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور تاجر اس کو ادا نہیں کرسکتے تاجروں کے ساتھ مل کر اس پر کام کر رہے ہیں، کراچی چیمبر کے تھنک ٹینک کا کہنا ہے کہ معاشی تجزیہ کر کہ حکومت کو فراہم کریگا،تحقیق سے حکومت اور ایف بی آر قوانین سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی،اوورسیز میں نائجیریا اور کینیا میں یہ تھنک ٹینک کام کررہا ہے۔
تاجر برادریایک طویل عرصے سے ایس آر او 350 کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں،شرح سود کی 5 فیصد کمی ہونی چاہیئے،کراچی چیمبر معاشی معاملات سے ہٹ کر قانونی معاملات بھی دیکھتا ہے،امن و امان کی صورتحال کے اعدادوشمار بھی پولیس کو ارسال کرتے ہیں،حکومت کو چاہیئے ان مسائل کو حل کرے کیونکہ صنعت بند ہورہی ہے،تاجر دوست اسکیم میں 60 ہزار روپے ماہانہ کوئی آدمی نہیں ادا کرسکتا،ہم نے اس کی مخالفت کی،کراچی کو دیکھیں گے تو تب ہی پاکستان کو دیکھیں گے،پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں،حکومت ایم ایف ایس سے لے کر کموڈٹی ٹیکس اور ودہولڈنگ میں اضافے میں کمی پر غور کرے۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان بھر کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے: کیونکہ یہ بنیادی افراط زر کی بہ نسبت ابھی بھی بھاری پریمیم پر مبنی ہے۔ اگرچہ ایف پی سی سی آئی 200 بیسس پوائنٹ یا 2 فیصد کی کمی کو ویلکم کرتی ہے؛ لیکن یہ کمی مقامی اور بین الاقوامی سطح پر ہو نے والی اشیاء کی قیمتو ں میں گرا وٹ کے مقابلے میں بہت نا کافی اوربہت وقت ضائع کرنے کے بعد کی گئی ہے ۔عاطف اکرام شیخ نے نشاندہی کی کہ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس (PBS) کے ذریعے حکومت کے اپنے دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اگست 2024 کے دوران پاکستان میں بنیادی مہنگائی کی شر ح 9.6 فیصد تک پہنچ گئی۔ لہذا، بنیادی افراط زر کے مقابلے میں موجودہ شرح سود میں کمی کے بعد بھی حقیقی سود کی شرح 790 بیسس پوائنٹ سے پلس ہے؛ جو کہ ایک کاروبار مخالف اور معا شی ترقی کے مخالف عمل ہے ۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے مزید کہا کہ مارکیٹ کے اندازوں کے مطابق ستمبر 2024 کے لیے بنیادی افراط زر تقریباً 8.0 فیصد کے قریب ہونے جا رہا ہے۔مزید برآں، تیل کی بین الاقوامی قیمتیں 3 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں اوررواں ہفتے کے دوران 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہوگئی ہیں۔لہذا ، حکام کے پاس شر ح سود میںخاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کے لیے تمام ضروری لوازمات موجود تھے۔ لیکن پھر بھی رجعت پسند، غیر پیداواری اور معا شی سرگرمیوں پر منفی اثر انداز ہونے والی ما نیٹری پالیسی کو جاری کھا گی ہے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 2 فیصد کمی کرکے 17.5 فیصد کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ کے سی سی آئی کو شرح سود میں کم از کم 5 فیصد کمی کی توقع تھی لیکن اس میں صرف 2 فیصد کمی کی گئی ہے جو نہ تو کافی ہے اور نہ ہی مہنگائی کے گرتے ہوئے رجحان کے مطابق ہے جو سنگل ڈیجٹ پر آ گئی ہے۔200 بیسس پوائنٹس کی کمی کے ساتھ پالیسی ریٹ اب17.5 فیصد ہے جو کہ اب بھی بہت زیادہ ہے لہٰذا اسے زیادہ جارحانہ انداز میں کم کرنا چاہیے تاکہ اسے فوری طور پر سنگل ڈیجٹ پر لاتے ہوئے 7 سے 8 فیصد کے درمیان کردیا جائے جو خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کے برابر ہے۔ایک بیان میں قا ئم مقام صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ تاجر برادری سود کی شرح کو سنگل ڈیجیٹ پر دیکھنا چاہتی ہے جس سے یقینی طور پر قرضے لینے کی حوصلہ افزائی ہو گی اور کاروباری لاگت میں کمی کی وجہ سے توسیع کو فروغ ملے گا جو یقیناً معیشت کے لیے سازگار ثابت ہوگا۔
انٹرسٹ ریٹ میں2فیصد کمی سے معمولی حد تک کاروبار کو ریلیف ملے گا لیکن درحقیقت تاجروں، برآمد کنندگان، درآمد کنندگان اور چھوٹے کاروباروں کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے، جو کہ بنیادی طور پر لیکویڈیٹی کی کمی کی وجہ سے ہیں، اس صورتحال کو معاشی چیلنجز، خاص طور پر کاروباری لاگتوں میں بے پناہ اضافے اور ریکارڈ بلند توانائی کے نرخوں نے مزید بگاڑ دیا ہے، شرح سود میں 2فیصد کی کمی موجودہ حالات میں ایس بی پی مثبت قدم ضرور ہے لیکن یہ ناکافی ہے۔ یو بی جی رہنمائوں نے کہا کہ پاکستان کی بزنس کمیونٹی کو شرح سود میںکم از کم 5 فیصد کی بڑی کمی کی توقع کی تھی لیکن 2 کی کمی نہ تو کافی ہے اور نہ ہی کم ہوتی ہوئی افراط زر کی شرح سے ہم آہنگ ہے،افراط زر سنگل ڈیجٹس میں آ چکی ہے، پھر بھی پالیسی کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے ۔ شرح سود میں 2فیصد کمی کوحقائق کے برخلاف قرار دیتے ہوئے کہاکہ پاکستان بھر کی کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری مانیٹری پالیسی سے مایوس ہے کیونکہ یہ بنیادی افراط زر کی بہ نسبت ابھی بھی بھاری پریمیم پر مبنی ہے، مارکیٹ کے اندازوں کے مطابق ستمبر 2024 کے لیے بنیادی افراط زر تقریباً 8.0 فیصد کے قریب ہونے جا رہا ہے جبکہ تیل کی عالمی قیمتیں 3 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہیں اوررواں ہفتے کے دوران 70 ڈالر فی بیرل سے کم ہوگئی ہیں لہذا اسٹیٹ بینک کے پاس شر ح سود میںخاطر خواہ کمی کا اعلان کرنے کی کوئی بڑی وجہ نہ تھی، شرح سود کو فوری طور پر 12 فیصد تک لانا چاہیے تھا تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے کسی حد تک سرمایہ کی لاگت کو بامعنی انداز میں کم کر کے علاقائی اور بین الاقوامی برآمدی منڈیوں میں مقابلہ کر نے کے قابل بنایا جا سکے تاہم اب بھی وسقت نہیں گزرا اس لئے اسٹیٹ بینک فوری طور پر شرح سود میں مزید کم از کم 3 فیصد کی کمی کا اعلان کرے۔
یہ عجیب بات ہے ایک جانب اسٹیٹ بینک بار بار یہی اعلان کر رہی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہو رہی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے شرح سود میں کمی کی مزید گنجائش تھی اور اسے سنگل ڈیجٹ پر لایا جاسکتا تھا۔ مرکزی بینک کا یہ فیصلہ درست سمت کی طرف مثبت قدم ہے مگر اسٹیٹ بینک کو اس حوالے سے ایک روڈ میپ متعین کرنا چاہیے اور شرح سود کو سنگل ڈیجٹ پر لا کر بزنس کمیونٹی کے رائے کو اہمیت دینی چاہیے جو ملکی معیشت کے استحکام میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
تاجروں اور صنعتکاروں نے بجٹ تجاویز میں پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے پر زور دیا تھا جس کے نتیجے میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی لائی جاسکتی ہے اور بزنس کمیونٹی کو سرمائے کی کمی کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی مارکیٹوں میں مقابلے کی صلاحیت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ایک واضح روڈ میپ متعین کرنے سے تاجر وصنعتکار برادری کو اطمینان کے ساتھ اپنی مستبقل کی کاروباری حکمت عملی طے کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ شرح سود میں بار بار اتار چڑھاؤمشکلات کا باعث بنتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر افراط زر سنگل ڈیجٹ تک گرا تو حقیقی شرح سود 10 سے 11 فیصد تک پہنچ گیا جس کے نتیجے میں پالیسی ریٹ کو کم از کم 5 فیصد تک کم کیا جانا چاہیے تھا جویکدم نہ سہی مگر بتدریج کم کیا جائے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک بدلتے ہوئے معاشی حالات کا جواب دینے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے لہٰذاموجودہ ترجیح کوششوں کو تیز کرنا اور معیشت کو متحرک کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
حکومت کو بے روزگاری، شرح سود، بجلی کے نرخوں، ملکی و غیر ملکی قرضوں اور گردشی قرض جیسے مسائل کو مناسب طریقے سے حل کرنے کا منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر اصلاحات میں تاخیر کی گئی تو ملکی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا جبکہ عوام کا معیار زندگی گرے گا۔ اگرچہ شرح نمو کسی حک تک حوصلہ افزا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے کیونکہ فی کس آمدنی میں اضافہ اب بھی کم ہے، قرضے اب بھی بڑھ رہے ہیں اور بے روزگاری اور غربت کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ حکومت کو دیرینہ مسائل کو حل کرنے اور معیشت کو چلانے کے لئے سخت اصلاحات کرنا ہوں گی۔ دوسری صورت میں ملک دیوالیہ ہو جائے گا۔ حکومت کو درست مانیٹری اور مالیاتی پالیسیوں روشناس کروانا ہونگی تاکہ معیشت کو مستقل طور پر ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔