بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والی گنیش پوجا میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کی شرکت نے ایک بڑے تنازع کو جنم دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان جو فاصلہ ہونا چاہیے اسے برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ سا بق ججز، سینئر وکلا، حزب اختلاف کے رہنماؤں اور تجزیہ کاروں نے عدلیہ کی شفافیت اور اس کے ضابطہ اخلاق پر سوال اٹھایا ہے۔ جب کہ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے وزیرِ اعظم کے اس اقدام کا دفاع کیا ہے۔وزیرِ اعظم نریندر مودی نے اس تقریب کی ایک ویو اپنے ایکس ہینڈل سے شیئر کی جس میں چیف جسٹس چندرچوڑ اور ان کی اہلیہ کلپنا داس کو ان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اور مودی کے ان دونوں کے ساتھ پوجا کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔سماج وادی پارٹی کے رکن راجیہ سبھا، سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کپل سبل نے کہا کہ جو لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں ان کو کسی نجی تقریب کی اس طرح تشہیر نہیں کرنا چاہیے۔انہوںنے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کسی کو بھی خود کو ایسی پوزیشن میں نہیں ڈالنا چاہیے جہاں لوگ کسی ادارے کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جائیں۔اْن کا کہنا تھا کہ میں نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر جو دیکھا اس پر حیران رہ گیا۔ وزیرِ اعظم کو وہاں نہیں جانا چاہیے تھا، اس سے غلط پیغام جاتا ہے۔
شیو سینا (اودھو ٹھاکرے گروپ) کے رکنِ راجیہ سبھا سنجے راوت نے کہا کہ چیف جسٹس کی سبکدوشی کے دن قریب آرہے ہیں۔ ایسے میں وزیرِ اعظم مودی نے ان کے گھر پوجا میں شرکت کی۔ اس سے شک پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کا مقصد مہاراشٹر کی غیر قانونی حکومت کو بچانا اور شیو سینا اودھو ٹھاکرے گروپ کو ختم کرنا ہے۔یاد رہے کہ شیو سینا کی تقسیم اور ایکناتھ شنڈے گروپ کی حکومت سازی کا مقدمہ چیف جسٹس کی عدالت میں ہے۔ راوت نے کہا کہ اب ان حالات میں چیف جسٹس کو اس مقدمے کی سماعت سے خود کو الگ کر لینا چاہیے ورنہ شبہات پیدا ہوں گے۔واضح رہے کہ ڈی وائی چندر چوڑ دو ماہ کے اندر اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی‘ (این سی پی) اور شیو سینا کے ارکانِ پارلیمان علیٰ الترتیب منوج جھا، سپریہ سولے اور پرینکا چترویدی نے بھی وزیر اعظم کے اس قدم پر تنقید کی ہے۔ کانگریس کے کسی بڑے رہنما نے تاحال اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مہاراشٹر میں جلد ہی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں وزیرِ اعظم مودی کا مراٹھیوں کی طرح لباس زیب تن کر کے گنیش پوجا میں شامل ہونا ریاستی اسمبلی کے انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش ہے۔
ملک کے نامور قانون دانوں نے بھی اس پر اعتراض کیا ہے اور اخبارات میں مضامین لکھ کر عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان فاصلہ بنائے رکھنے پر زور دیا ہے۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کا کہنا ہے کہ کوئی ایسا قانون تو نہیں ہے کہ وزیرِ اعظم چیف جسٹس کے گھر منعقد ہونے والی کسی تقریب میں شرکت نہیں کر سکتے۔ لیکن ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے اور روایات ہوتی ہیں جن کی پاسداری کی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کے گھر ہونے والی پوجا میں وزیرِ اعظم کی شرکت سے عدلیہ کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ خود مودی کو اس تقریب میں شرکت سے منع کر دیتے۔انہوںنے کہا کہ وزیرِ اعظم نے خود اپنے ایکس ہینڈل سے اس وڈیو کو جاری کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد زیریں عدالتوں کو بھی کوئی پیغام دینا تھا۔ان کے مطابق ان حالات میں جب کہ مرکزی حکومت کی جانب سے دائر کردہ متعدد مقدمات خود چیف جسٹس کی عدالت میں ہیں، وزیرِ اعظم کا وہاں جانا شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے وکیل اور تجزیہ کار رویندر کما ایڈووکیٹ نے گفتگو میں عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان فاصلے کو برقرار رکھنے پر زور دیتے ہوئے اس واقعے پر اظہار افسوس کیا۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل پرشانت بھوشن نے ایکس پر لکھا کہ چیف جسٹس کے گھر ایک نجی تقریب میں وزیرِ اعظم کی شرکت سے عدلیہ کی آزادی اور عوام کے حقوق کے تحفظ اور حکومت کی جواب دہی کو یقینی بنانے کے بارے میں پریشان کن پیغام جاتا ہے۔معروف قانون داں اور سپریم کورٹ کی سینئر وکیل اندرا جے سنگھ ایڈووکیٹ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں چیف جسٹس پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ اختیارات سے سمجھوتاکر لیا۔
سابق چیف جسٹس آر ایم لوڈھا نے مقامی اخبار سے بات کرتے ہوئے عدلیہ اور انتظامیہ کے الگ الگ آئینی اختیارات اور ان میں فاصلہ برقرا رکھے پر زور دیا اور کہا کہ ان کی یادداشت میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی وزیرِ اعظم نے چیف جسٹس کی سرکاری رہائش کا دورہ کیا ہو۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر کے مطابق وزیرِ اعظم کے اس دورے سے عوام میں عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔ تاہم وہ نہیں سمجھتے کہ اس سے چیف جسٹس کے فیصلوں پر اثر پڑے گا۔سپریم کورٹ کے دیگر وکلا اور دیگر ہائی کورٹس اور بعض دیلی عدالتوں کے سابق ججز نے بھی اس دورے کو نامناسب قرار دیا ہے۔سینئر تجزیہ کار ابھے دوبے نے ایک ٹی وی پروگرام میں مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ججز اور سیاست کے مابین جو رشتہ آج کل نظر آرہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ایودھیا تنازع میں رام مندر کے حق میں فیصلہ دیا تھا اور حکومت نے انھیں راجیہ سبھا کا رکن نامزد کیا تھا۔کولکتہ ہائی کورٹ کے جج ابھیجیت گنگوپادھیائے نے پارلیمانی انتخابات سے پہلے قبل از وقت سبکدوش ہو کر بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اور لوک سبھا کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ممتا حکومت کے خلاف کئی فیصلے سنائے تھے۔بی جے پی نے وزیرِ اعظم کے دورے کا دفاع کیا اور اپوزیشن کو یاد دلایا کہ 2009 میں وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی افطار پارٹی میں اس وقت کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن نے شرکت کی تھی۔
بی جے پی رہنما شہزاد پونہ والا نے ایکس پر اس سلسلے کی ایک وڈیو شیئر کی اور مودی کے دورے کو مبینہ طور پر سیاسی رنگ دینے پر حزب اختلاف کی مذمت کی۔مرکزی وزیر بھوپیندر یادو نے اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ اور عدلیہ کی جانب سے گنیش بھگوان کی جن میں کروڑوں افراد اعتقاد رکھتے ہیں، پوجا کی جا رہی ہے جس سے بھارت کے مضبوط سیکولرزم کا اظہار ہوتا ہے۔بی جے پی کے رکنِ پارلیمان اور قومی ترجمان ڈاکٹر سمبت پاترا نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ حزب اختلاف کو چیف جسٹس سے وزیرِ اعظم کے ملنے پر اعتراض ہے لیکن کانگریس رہنما راہل گاندھی کے امریکی قانون ساز الہان عمر سے ملاقات پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔یاد رہے کہ راہل گاندھی نے گزشتہ دنوں اپنے امریکی دورے میں کئی قانون سازوں سے ملاقات کی تھی جن میں الہان عمر بھی شامل تھیں۔ دیگر بی جے پی رہنماؤں نے بھی چیف جسٹس کے گھر وزیر اعظم کی پوجا کا دفاع کیا۔