بھارت سے بنگلادیش کو سیکورٹی خطرات اور پاکستان

458

اس حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے کہ آئندہ انتخابات میں خالدہ ضیا کی بنگلا دیش نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی کا اتحاد ہی حکومت بنائے گا۔ جب کہ عوامی لیگ اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کے بھی قابل نہیں ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ کے اکثر ارکان اب انتخاب سے دور رہنے کی کوشش کر رہے ہیں جن پر بنگلا دیشی عوام کے قتل، ڈھاکا یونیورسٹی کی احتجاج کرنے والی طالبات کی بے حرمتی اور مالی بدعنوانی کے ثابت شدہ الزامات ہیں اور ان میں بہت سارے بھارت فرار ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ اچانک بنگلا دیش کو بھارت سے سیکورٹی خدشات کا سامنا کیوں لاحق ہو گیا ہے۔ 53 برسوں سے بھارت سے ایسا کچھ بھی نہیں تھا! لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی۔ بنگلا دیشی اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح علم تھا کہ بنگلادیش کو بھارت نے ایک پڑوسی ملک نہیں غلام بنانے کے لیے نام نہاد آزادی کے نام پر دھوکا دیا تھا۔ بھارتی اخبارات کا کہنا ہے 5 اگست کے بعد ہی بھارتی حکومت نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ بھارت کو اپنے ’’رنگ پور ہندو آزاد ریاست‘‘ کے قیام کے منصوبے جس کی تکمیل کی تیاری شیخ حسینہ نے کر لی تھی اب مکمل نہیں ہو سکتا، جس پر بھارت نے بنگلا دیشی فوجی افسران سے رابطے بڑھا دیے تھے۔ بنگلا دیش کی یونس حکومت کی جانب سے فوجی افسران کی غیر معمولی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ جن کے بارے میں بھارتی اخبارات کے مطابق بنگلا دیشی حکومت کو اطلاع موصول ہوئی تھی کہ 4 لیفٹیننٹ جنرل اور ایک میجر جنرل سرحدوں پر بھارتی افواج کو سہولت دے رہے ہیں جس کے بعد بھارتی افواج بڑی آسانی سے بنگلا دیش میں داخل ہو کر وہاں کا امن و امان تباہ کر رہی ہیں۔ ان افسران کو فوری طور پر برطرف کر کے ان کے اور ان کے رشتے داروں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے۔ قبل ازیں 7 اگست کو بنگلادیشی میڈیا کے مطابق میجر جنرل ضیا الاحسن نجی ائرلائن کی پرواز کے ذریعے دبئی جارہے تھے جو بنگلا دیشی حکومت نے جہاز کے ٹیک آف سے قبل رن وے سے واپس بلاکر انہیں گرفتار کر لیا۔

بنگلا دیش کو تین اطراف سے بھارتی افواج کے گھرے میں ہونے کی وجہ سے بد ترین سیکورٹی خطرات کا سامنا ہے جس پر بین الاقوامی تعلقات کے ممتاز بنگلا دیشی پروفیسر اور سیکورٹی ماہر ڈاکٹر شاہدالزمان کا کہنا ہے کہ بنگلا دیش کو پاکستان کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے پر غور کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان قومی سلامتی کے معاملے پر بنگلا دیش کا سب سے قابل اعتماد سیکورٹی اتحادی بن سکتا ہے۔ بھارتی میڈیا میں تو پروفیسر اور سیکورٹی ماہر ڈاکٹر شاہدالزمان کے اس مشورے نے لنکا میں لگی آگ کی طرح پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر شاہدالزمان نے اس کی تفصیل اس طرح بتائی تھی کہ پاکستان کے ساتھ جوہری معاہدے سے بنگلا دیش زراعت، صنعت، اور میڈیکل فیلڈ میں ترقی کر سکے گا اور اس سے بنگلا دیش کے عوام کو فائد ہو گا، ہاں یہ ضرور کہا تھا کہ چٹاگانگ میں پاکستان سے درآمد کر کے شارٹ رینج ایٹمی صلاحیت کے میزائل لگائے جائیں جہاں سے بھارت بنگلا دیش کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی ہیں کہ بنگلا دیش اور پاکستانی فضائیہ کے درمیان پہلے طے مشقیں بھی ہوں گی جس میں اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ ان مشقوں میں پاکستان کے جے ایف-17 تھنڈرکو شامل کیا جائے گا اور ان مشقوں کو بنگلا دیشی شہر سلہٹ میں کیا جائے گا جہاں شیخ حسینہ نے ایک اعلیٰ صلاحیتوں کا حامل ہو ائی اڈہ تعمیر کیا تھا تاکہ یہاں بھارت کو فوجی اڈہ بنانے کی اجازت دی جائے۔ یہ فوجی اڈا چین اور بھارت سے بہت قریب ہے۔

ریٹائرڈ آرمڈ فورسز آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزمان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش کو بھارتی جارحیت سے بچانے کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے، تقریب میں موجود ریٹائرڈ فوجی افسران نے پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزماں کی تجاویز کو زبردست طریقے سے سراہا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد الزمان نے کہا کہ ہمیں پاکستان کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنا چاہیے، ان کا موقف تھا کہ اتحادیوں اور ٹیکنالوجی کے بغیر بنگلا دیش پر بھارتی حملے کو روکا نہیں جا سکتا۔ ’پاکستان بنگلا دیش کا سب سے قابل اعتماد سیکورٹی اتحادی ہے جبکہ ہندوستانی چاہتے ہیں کہ ہم اس پر یقین نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام 1971ء میں بنگالیوں کے ساتھ تھے اور آج بھی وہی ہمارے اچھے دوست ہوسکتے ہیں جس کی بنگلا دیش کو ضرورت ہے۔

دوسری جانب پانچ اگست کو شیخ حسینہ کے استعفے اور بھارت جانے کے بعد سے بنگلا دیش اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا ہے۔ خیال رہے کہ اگست میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے لیے پرتشدد احتجاج کے دوران بنگلا دیش میں ہندوؤں اور بھارت سے وابستہ عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا گیا جس پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے محمد یونس کی حکومت سے اقلیتوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی بھی اپیل کی تھی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ہندوؤں اور بھارت سے وابستہ عمارتوں پر نہیں بلکہ ان لوگوں پر حملہ کیا گیا جہاں عوامی لیگ کے کارکنان کو پناہ اور امداد دی جارہی تھی۔

بنگلا دیش کی بعض سیاسی جماعتوں نے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرنے پر بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بھارت بنگلا دیش کا بڑا ہمسایہ ہے جس کے ساتھ اس کی چار ہزار کلو میٹر سے زائد کی سرحد ہے اور دونوں کا ایک دوسرے پر بہت دارومدار ہے۔ لہٰذا اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ بنگلا دیشی عوام میں بھارت کے حوالے سے تحفظات کی وجہ اس کا ہمسایہ ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے بجائے اس پر اپنا اثر رسوخ رکھنے کی حکمت ِ عملی ہے۔ حال ہی میں بنگالی عوام نے بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا تھا۔ محمد یونس نے بیان دیا کہ بنگلا دیشی بھارت سے ناراض ہیں اس لیے کہ انہوں نے عوام کے بجائے صرف شیخ حسینہ سے تعلقات رکھے۔ بنگلا دیش شیخ حسینہ کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو یہ بھارت کے لیے مشکل صورتِ حال ہو گی کیوں کہ دونوں ملکوں کے درمیان مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ بھی ہے۔بھارت کے لیے بنگلا دیش پر دوبارہ سے اپنا اثر رسوخ قائم کرنا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ موجودہ حالات نئی دہلی کے ڈھاکا پر غیر ضروری اثر انداز ہونے کا ردعمل ہے۔ بنگلا دیشی عوام میں سے بھارت مخالف جذبات کو ختم کرنے میں وقت لگے گا اور بنگلا دیش کی موجودہ اور آنے والی حکومت بھارت کو زیادہ جگہ نہیں دے سکے گی۔ بھارت مستقبل میں بنگلا دیش کے ساتھ اپنے تعلقات کو شیخ حسینہ کے دور تک کبھی بھی واپس نہیں لے جا سکے گا۔