آئینی عدالت کیوں؟ عدالت عظمیٰ کیوں نہیں

386

پچھلے ایک ہفتے سے آئینی ترمیم کے حوالے اسلام آباد میں جو سیاسی سرگرمیاں نظر آرہی تھیں اور مولانا فضل الرحمن کا گھر ان سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا تھا اتوار 15 ستمبر کی رات کو وہ سب ٹھنڈی پڑ گئیں جب یہ اعلان ہوا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔ تین ہفتوں سے ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کو اسلام آباد میں روک کر رکھا ہوا تھا۔ مثلاً یہ آپ کسی کام سے ملک میں کہیں بھی جائیں کام کرکے واپس آجائیں اور رابطے میں رہیں ملک سے باہر کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی ہفتے اور اتوار دو روز تک تو ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز ایوان میں ایک طرح سے نظر بند رہے اس لیے کہ صبح گیارہ بجے پھر چار بجے اور پھر رات آٹھ بجے کا اجلاس شروع ہونے کا وقت دیا جاتا رہا۔ اس آئینی پیکیج پر جو ملاقاتیں اور اس میں جو گفت و شنید ہوتی رہیں وہ خبروں اور ٹی وی مباحثوں کے ذریعے عام لوگوں تک پہنچتی رہیں۔ لیکن عام لوگ تو یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ اس ساری مشق سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔ کیا حکومت کی خواہش کے مطابق آئینی عدالت بننے سے ملک میں سبزی و گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت سستی ہو جائیں گی؟ کیا ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع یا ان کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بڑھا دینے سے ملک میں بجلی سستی ہوجائے گی؟ کیا حکومت کی مرضی سے آئینی عدالت کا چیف جسٹس آجانے سے بیرون ممالک سے پاکستانی دھڑا دھڑ پیسے بھیجنا شروع کردیں گے اور حکومت کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔

ہو سکتا ہے میرے مضمون میں کوئی ترتیب سے بات بڑھتی ہوئی نظر نہ آئے، بس یہ کہ جو نکات ذہن میں آتے جائیں گے اس پر بات ہوتی جائے گی ایک بات تو بار بار ذہن میں یہ کلبلا رہی ہے کہ ہمارے آئین میں اب تک جتنی ترامیم ہوئی ہیں ان میں اکثریت ایسی ترامیم کی ہیں جن میں ہمیں اخلاص کا فقدان نظر آتا ہے زیادہ تر تو اپنے سیاسی و گروہی مفادات کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ لیکن کئی ترامیم ایسی ہیں جن کو عوام تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں جس میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی ترمیم تو پاکستانی عوام کی آنکھ کا تارا ہے جس سے عوام ہی نہیں اللہ اور اس رسول بھی ان ترمیم کرانے والوں سے یقینا خوش ہوں گے اور وہ لوگ اس کے اجر عظیم کے مستحق ہوں گے ان شاء اللہ۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق کے دور میں جو اسلامی اقدامات اٹھائے گئے آٹھویں ترمیم کے ذریعے اسے آئینی تحفظ فراہم کیا گیا۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت تھی آصف زرداری ملک کے صدر تھے ان کے دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں صوبوں کے اختیارات اور مالی وسائل بڑھانے کی بات کی گئی ہے، جن تین ترامیم کا اوپر ذکر ہوا ہے ان میں خاص بات یہ تھی کہ ان ترامیم پر مہینوں اسمبلی اور میڈیا میں بحث ہوتی رہی اور عوام کو بھی اس سے کچھ نہ کچھ آگاہی ہوتی رہی، لیکن یہ چھبیسویں ترمیم جو لائی جارہی تھی اس میں حکومت کی خواہش یہ تھی کہ تمام جماعتیں آنکھ بند کرکے اسی طرح اس کی منظوری دے دیں جیسے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے موقع پر تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی۔ لیکن اس ترمیم پر مولانا فضل الرحمن نے اپنی آنکھ بند کرنے سے انکار کردیا۔

مولانا فضل الرحمن نے تو یہاں تک کہا کہ اگر ہم اس ترمیم کو ایسے ہی یعنی بغیر دیکھے اور سمجھے منظور کرلیتے تو یہ ہم امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے۔ مولانا نے کہا کہ ہمیں زبانی جو باتیں بتائی جارہی تھیں وہ اس مسودے سے مختلف تھیں جو ہمیں دیا گیا۔ پھر جو مسودے مختلف سیاسی جماعتوں کو دیے گئے وہ سب ایک دوسرے سے مختلف تھے کئی نکات تو یکساں تھے لیکن کہیں کہیں کچھ فرق تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر قانون سمیت سرکاری بنچوں سے تعلق رکھنے والے وزراء خود اس ترمیم کی تفصیلات سے بے خبر تھے ان کا کہنا تھا کہ انہیں دو روز قبل ہی مسودہ ملا ہے۔ کچھ پتا نہیں کہ اس آئینی ترمیم کا مسودہ کس خلا میں کون سی پوشیدہ مخلوق نے تیار کیا جس کی تفصیلات کا خود اتحادی پارٹیوں کو علم نہیں، پھر ہر سیاسی جماعت کو الگ الگ مسودے پکڑائے گئے۔ خود پیپلز پارٹی کے بلاول زرداری نے وسیم بادامی کو انٹرویو میں کہا کہ انہیں جو مسودہ دیا گیا اور جو ن لیگ کو دیا گیا اس میں بھی انہوں نے ان نکات کی نشاندہی کی جن میں دونوں مسودوں میں اختلاف تھا انہوں نے باقاعدہ واضح طور پر بتایا کہ کون سے پوانٹس ہمارے مسودے میں تھے جو ن لیگ کے مسودے میں نہیں تھے اسی طرح ن لیگ کے مسودے میں کچھ ایسے پوانٹس تھے جو بلاول کے مسودے میں نہیں تھے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں مولانا نے کہا کہ ہمیں جو مسودہ دیا گیا وہ ہم نے اپنی لیگل ٹیم کو چیک کرنے کے لیے دیا، پھر ہماری لیگل ٹیم نے جو رپورٹ دی تو اس میں کئی ایسی باتیں سامنے آئیں جس کی وجہ سے ہم اس کو اسی شکل و صورت میں یعنی As it is منظور کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ اس میں عوام کے لیے کچھ نہیں ہے سارا فائدہ حکومت کو ہے۔

بلاول نے مولانا فضل الرحمن سے کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ بلاول کے پاس آئینی ترمیم کا جو مسودہ تھا اور مولانا فضل الرحمن کے پاس جو ہے اس میں بھی بہت فرق ہے اب یہ طے ہوا ہے کہ مولانا اور بلاول زرداری مل کر دونوں مسودوں کو سامنے رکھ کر کوئی ایک ایسا مسودہ بنائیں گے جو سب کے لیے قابل قبول ہو اس میں ن لیگ کا مسودہ کون سا ہے اور کہاں ہے وہ ابھی صیغہ راز میں ہے پھر ایک اہم سوال یہ بھی سامنے آئے گا کہ مولانا فضل الرحمن اور بلاول کے اشتراک سے جو مسودہ بن کر آئے گا آیا وہ ن لیگ کو اور ان کے سرپرستوں کو منظور ہوگا کہ نہیں۔ اب دیکھتے ہیں بلاول کا جوش اور مولانا کا ہوش مل کر کیسی آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آتا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ حکمران طبقہ اس آئینی ترمیم کے مستقبل سے مایوس ہوچکا ہے اور اس کی بڑی سبکی ہوئی ہے اسے یہ امید نہیں ہے کہ وہ مولانا کی سیاسی حمایت حاصل کر پائیں گے اس لیے اب دوسرے پلان بی پر کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے جس میں اسپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط لکھنا پھر ایک آرڈیننس کا آجانا اس پر کسی اور مضمون میں بات کریں گے فی الحال تو ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے اس آئینی ترمیم کی خاص بات کیا ہے جس پر سارے جھگڑے کا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہے عدالت عظمیٰ سے الگ ایک آئینی کورٹ کا قیام، اس کے بارے میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اب سے تقریباً اٹھارہ برس قبل لندن میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے جو میثاق جمہوریت تشکیل دیا تھا اس میں آئینی کورٹ کے قیام کی بات کی گئی تھی۔ اہم سوال یہ ہے کہ اب اتنی مدت گزرنے کے بعد یہ آئینی عدالت کیوں یاد آرہی ہے۔ سرکاری حلقوں سے جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا تو جواب ملتا ہے کہ عدالت عظمیٰ میں کم و بیش ساٹھ ہزار مقدمات التواء میں پڑے ہوئے ہیں اس لیے عدالت عظمیٰ کو یہ موقع ملنا چاہیے کہ وہ ان مقدمات کا بوجھ کم کرسکے پھر تو یہ بات آتی ہے کہ لوئر کورٹ، سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ کو ملا کر لاکھوں کی تعداد میں پینڈنگ کیسز پڑے ہوئے ہیں اس حوالے سے بھی کوئی قانون سازی ہونا چاہیے تاکہ عوام کو بھرپور ریلیف مل سکے۔ دوسری بات جس پر سخت اعتراض کیا جارہا ہے وہ یہ کہ اس آئینی عدالت کے چیف کا تقرر پہلی بار وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کریں گے پھر بعد میں پارلیمانی کمیٹی کو یہ اختیا ر دے دیا جائے گا۔ نیب کے سربراہ اور الیکشن کمیشن کے سربراہ کے لیے تو یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل کمیٹی جس میں دونوں طرف سے برابر کی نمائندگی ہوگی وہ کمیٹی فیصلہ کرے گی لیکن آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے تقرر کا اختیار حکومت کو دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ اس عدالت سے وہی فیصلے ہوں گے جو حکومت چاہے گی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوگا کہ آئینی عدالت ویلکم اور عدالت عظمیٰ خدا حافظ۔