اگر جاپان میں مرد اور عورت کے درمیان حقوق کی تقسیم کا جائزہ لیا جائے تو جاپانی آئین کا آرٹیکل 14 عورت اور مرد کو برابر کے قانونی حقوق کی ضمانت فراہم کرتا نظر آتا اور اس کے آرٹیکل 14 کے تحت جنس کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی بھی امتیاز ممنوع ہے۔ اگرچہ قانون میں عورت اور مرد کو برابری کی ضمانت دی گئی ہے، لیکن معاشرتی اور ثقافتی سطح پر جاپان میں اب بھی کچھ چیلنجز موجود ہیں۔ روایتی نظریات اور معاشرتی توقعات کی وجہ سے عورتوں کو بعض اوقات مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
ایک بیانیے کے مطابق جاپان میں عورت اور مرد کے درمیان مساوات کا موضوع اب بھی ایک اہم اور پیچیدہ مسئلہ ہے۔ لیکن اس موضوع پر ماضی کے مقابلے میں اب بہت زیادہ بہتری نظر آتی ہے۔ جاپانی معاشرے پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین عمرانیات جاپانی معاشرے میں عورت کی موجودہ بہتر حالت کو ایک طویل جدو جہد کا ثمر قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جاپان کی قدیم تاریخ میں خواتین کی سماجی حیثیت انتہائی محدود تھی۔ ایدو دور (1603-1868) میں سماجی نظام مکمل طور پر مرد کی بالادستی کے گرد گھومتا تھا اور معاشرے میں خواتین کی سیاسی یا سماجی شرکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بعد ازاں میجی دور میں جب جاپان نے مغربی طرز کے نظاموں کو اپنانا شروع کیا تو خاصی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ جاپان کی تعمیر و ترقی میں میجی آئین اور اس کے تحت ہونے والی اصلاحات کو بہت زیادہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ میجی آئین 1889 میں نافذ ہوا لیکن اس میں بھی خواتین کو ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔ اس دور میں خواتین کی تعلیم اور معاشرتی حیثیت میں یقینا کچھ بہتری آئی لیکن سیاسی حقوق کے حصول کا مرحلہ ابھی دور تھا۔
تائیشو دور (1912-1926) میں جاپان میں جمہوری اصلاحات کی کوششیں شروع ہوئیں۔ جس کے دوران سیاسی آزادیوں اور انسانی حقوق کی تحریکوں نے زور پکڑا۔ 1920 کی دہائی میں خواتین کے حقوق کی تحریکوں نے جنم لیا۔ خواتین کی تنظیمیں، مثلاً ’شویوجو کینکای‘ (ویمنز سفریج لیگ)، نے ووٹ کے حق کے لیے سرگرمیاں شروع کیں۔ اس سلسلے میں 1920 کی دہائی کی تحریکات نے اس موضوع پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ 1922 میں، جاپان میں خواتین کو سیاسی جلسوں میں شرکت کی اجازت دی گئی، جو کہ خواتین کی سیاسی شرکت کی جانب پہلا قدم تھا۔ 1924 میں، ویمنز سفریج لیگ نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ خواتین کو ووٹ دینے کا حق دے۔
جنگ ِ عظیم دوم کے بعد جاپان معاشرے کی سماجی اور سیاسی ساخت میں تبدیلیاں آئیں۔ امریکی قبضے کے دوران، جنرل ڈگلس میک آرتھر کی قیادت میں نئے آئین کی تیاری میں خواتین کے حقوق کو شامل کیا گیا۔ 1946 میں، جاپانی آئین میں ترمیم کی گئی جس کے تحت خواتین کو ووٹ دینے اور انتخابات میں حصہ لینے کا حق ملا۔ نئے آئین کے تحت، جاپان میں پہلی مرتبہ خواتین نے 1946 کے عام انتخابات میں ووٹ دیا اور سیاسی عمل میں حصہ لیا۔ 1947 میں نئے آئین کے تحت پہلی مرتبہ جاپان کی پارلیمنٹ (ڈائیٹ) کے انتخابات ہوئے جس میں خواتین نے بھرپور حصہ لیا۔ ان انتخابات میں 39 خواتین منتخب ہوئیں، جو کہ ایک بڑی کامیابی تھی۔
آج جاپان میں خواتین کو ووٹ دینے کا حق بھی حاصل ہے اور وہ تمام انتخابی عمل میں برابر کی شریک بھی ہیں۔ ہرچند کہ جاپان کے سیاسی نظام میں خواتین کی نمائندگی کی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے، مگر اس میں بتدریج بہتری آرہی ہے۔ مختلف حکومتی اور غیر حکومتی تنظیمیں خواتین کی سیاسی شمولیت کو بڑھانے کے لیے سرگرم ہیں۔ 2018 میں، جاپان نے ’جینڈر ایکوئل پارٹی سپیشن اینڈ ایمپلائمنٹ اپرچونٹی ایکٹ‘ پاس کیا جس کا مقصد خواتین کی سیاسی اور معاشرتی شرکت کو بڑھانا تھا۔
جاپان میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق کی تاریخ ایک اہم اور متاثر کن سفر ہے جو جاپانی سماج میں خواتین کی اہمیت اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔ یہ سفر ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ معاشرتی تبدیلیاں وقت، محنت اور مستقل مزاجی کی متقاضی ہوتی ہیں، اور ان کے ذریعے ہی بہتر مستقبل کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ جاپانی آئین میں عورت اور مرد کو برابر حقوق اور مواقع کی ضمانت دی گئی ہے۔ جاپانی آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق ’’تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں اور نسل، مذہب، جنس، سماجی حیثیت یا خاندان کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ جاپان میں تعلیم اور ملازمت کے مواقع مرد اور عورت دونوں کے لیے موجود ہیں۔ سرکاری قوانین اور پالیسیوں کے تحت دونوں کو برابر مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ لیکن یہ ایک کٹھن سفر تھا جس میں بالآخر خواتین نے اپنی حیثیت کو اس طرح منوایا ہے کہ آج جاپان میں تخت شاہی پر ایک خاتون کے متمکن ہونے کے امکان تک پر بات ہو رہی ہے۔