تیسرا فیصلہ

405

کیا مخلوق اپنے خالق کے خلاف جنگ کر سکتی ہے۔ کیا اشرف المخلوقات یعنی انسان اپنے ربّ سے لڑنے کا سوچ سکتا ہے۔ خیالی طور پر تو یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ لیکن عملی طور پر خوفناک سچ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف سودی نظام کی ترویج کے ذریعے یہ جنگ 14 اگست 1947 سے جاری ہے۔ اس جنگ کی سپہ سالاری مرکزی بینک کے پاس ہے۔ اس سراسر نقصان والی جنگ کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مرکزی بینک کے عہدے داران لاکھوں روپے تنخواہیں اور بڑی بڑی مراعات لے رہے ہیں۔ عدالتیں کئی دفعہ ملک کے حکمرانوں کو اس جنگ کو روکنے کا حکم دے چکی ہیں مگر انجام سے ناواقف حکمران اور مرکزی بینک کے عہدے داران حیلے بہانے سے بھلائی اور نجات کے اس حکم کو پچاس سال سے ٹالتے آ رہے ہیں۔

سودی نظام کے خلاف پہلا عدالتی فیصلہ ۱۹۹۱ میں آیا۔ یہ فیصلہ اس وقت رائج بلاسود بینکاری کے بھی خلاف تھا۔ بدبخت شریف ٹبر کی حکومت نے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کر وادی۔ نتیجتاً سود سے نجات کا موقع ضائع ہو گیا۔ سود کے خلاف دوسرا عدالتی فیصلہ ۱۹۹۹ میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے آیا۔ اس جامع تاریخی فیصلے کو عدالت عظمیٰ کے کچھ بدبخت ججوں نے فوجی ڈکٹیٹر کی خوشنودی کے لیے ۲۰۰۱ میں معطل کردیا۔ اس سے ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان پھر اللہ اور رسول کے خلاف جنگ میں مصروف ہوگیا۔

ملکی تاریخ میں تیسرا عدالتی فیصلہ وفاقی شریعت عدالت کی طرف سے ۲۰۲۲ میں آیا۔ پاکستان کی وفاقی شریعت عدالت نے تقریباً ڈھائی سال قبل اپریل ۲۰۲۲ کو وفاقی حکومت کو پانچ سال کے عرصے میں ملک میں سود کے مکمل خاتمے اور ربا سے پاک بینکاری نظام نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔ یاد رہے کہ وفاقی شریعت عدالت نے ۱۹ سال بعد سود کے نظام کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا۔ مذکورہ فیصلے کے مطابق شریعت کے خلاف قرار دیے گئے تمام قوانین یکم جون ۲۰۲۲ سے ختم ہو جانے تھے۔

عدالت کے فیصلے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ ۳۱ دسمبر ۲۰۲۷ تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم بھی دیاگیا تھا۔ شریعت عدالت نے اپنے تاریخی فیصلے میں انٹرسٹ ایکٹ ۱۸۳۹ اور یکم جون ۲۰۲۲ سے سود سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دیا۔

شریعت عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمے داری ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان سے ’’ربا‘‘ کا ہر صورت میں خاتمہ کرنا ہو گا۔ ربا کا خاتمہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ معاملے کو الجھانے اور ٹال مٹول کے لیے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ بینکوں کا سود وہ سود نہیں جس کی قرآن میں ممانعت ہے۔ شریعت عدالت کے فیصلے میں اس کی بھی وضاحت کر دی گئی تھی اور بہت واضح طور پر کہا گیا تھا کہ بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کا ۱۹۹۹ کا فیصلہ اور اسلامی نظریاتی کونسل کی ۱۹۸۰ کی رپورٹ کا مطالعہ بھی بہت مفید رہے گا۔

اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے خواہش مند عاقبت نااندیش حکمران سود کے خاتمے کے معیشت پر منفی اثرات بیان کر کے اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ عدالت وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں۔ سودی نظام کی سرپرست حکومتیں اور اسلامی جمہویہ پاکستان کے مرکزی بینک کے ذمہ داران پچاس سال سے یہی کہتے آرہے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔ عدالت نے کہا کہ بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔ عدالتی فیصلے کی رو سے ربا مکمل طور پر اور ہر صورت میں غلط ہے۔ صدیوں سے قائم سودی نظام کے خاتمے کا مشن اتنا آسان نہیں کہ بیانات اور سمینارز سے ختم ہو جائے گا۔

پانچ سالہ مہلت میں سے تقریباً آدھا وقت گزر جانے کے بعد مرکزی بینک سے عدالتی فیصلے پر عملدرامد کی کارکردگی رپورٹ لی جانی چاہیے۔ یہ رپورٹ وہی عدالت یعنی شریعت کورٹ ہی لے سکتی ہے جس نے مہلت دی تھی۔ چنانچہ انیس سال پہلے سود کے خلاف پٹیشن دائر کرنے والوں کو دوبارہ عدالت جاناچاہیے اور معزز عدالت سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ مرکزی بینک اور متعلقہ اداروں کو کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے۔ بہتر یہ ہوگا کہ عدالت ششماہی بنیاد پر کارکردگی رپورٹ طلب کرے۔ ایسا نہ ہوا تو سود کے پجاری عدالت کے فیصلے پر عمل نہیں کریں گے۔ خدشہ ہے کہ اس تاریخی فیصلے کا بھی وہی حشر نہ ہو جو اس سے پہلے والے عدالتی فیصلوں کا ہواہے۔ ہمارے اگر علمائِ کرام اور شریعت کے محافظ نہ جاگے تو حکمران اور سودی نظام کا محافظ مرکزی بینک ہمیں اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ میں جھونکے رکھے گا۔