کیا اب چاکلیٹ بم انٹری دینے والا ہے؟

126
the chocolate bomb

مہذب دنیا نے جنگ کے لیے بھی اصول مرتب کیے ہیں۔ دینی تعلیمات بھی جنگ کے اصول وضع کرتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جنگ کے دوران غیر متحارب لوگوں یعنی ہتھیار اٹھاکر مقابلے پر نہ آنے والوں کو کسی بھی حال میں کچھ نہ کہا جائے۔ اِن میں خواتین، بچے اور معمر افراد خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

اسرائیل کے خفیہ ادارے موساد نے ثابت کردیا ہے کہ اللہ کی طرف سے مردود قرار دی جانے والی قوم انسانیت کے تسلیم شدہ اصولوں پر یقین نہیں رکھتی اور اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔

چار دن قبل لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی دھماکوں سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خود کو اللہ کے منتخب بندے سمجھنے والے دوسروں کو انسان نہیں سمجھتے اور اِسی لیے وہ لڑائی میں ایسے ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں جن کے غیر متعلق افراد کی اموات بھی واقع ہوسکتی ہیں اور ہو رہی ہیں۔

لبنان میں جن پیجرز اور واکی ٹاکی ڈیوائسز میں دھماکے ہوئے اُن کے بارے میں اب یہ بات کُھل کر سامنے آچکی ہے کہ اُنہیں اسرائیلی خفیہ ادارے نے جعلی یا فرضی کمپنیوں کے ذریعے بنایا تھا۔ پیجر میں دھماکا خیز مواد نصب کرنے والوں کی شناخت چھپانے کے لیے تین جعلی کمپنیاں قائم کی گئی تھیں۔

اب دنیا بھر میں یہ سوچا جارہا ہے کہ جنگ کے دوران دشمنوں کو زیادہ سے زیادہ جانی و مالی نقصان پہنچانے کے لیے مختلف چیزوں کو بم کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ برقی گاڑیاں بہت آسانی سے چلتے پھرتے بم میں تبدیل ہوسکتی ہیں کیونکہ اُن کی بیٹریز میں بہت زیادہ دھماکا خیز مواد نصب کرنے کی بھرپور گنجائش موجود ہے۔

روس کے ایک فوجی کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ چاکلیٹ کو بھی بم میں تبدیل کر رہا ہے۔ کسی چاکلیٹ میں بہت زیادہ دھماکا خیز مواد نہیں رکھا جاسکتا تاہم اِتنا تو رکھا ہی جاسکتا ہے کہ جب اس کا دھماکا ہو تو متعلقہ فرد کا منہ اُڑ جائے۔

اسٹریٹجک اور سماجی امور کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ کسی بھی چیز کو بم میں تبدیل کرنے کا رجحان زور پکڑگیا تو دنیا بھر میں بہت سی خرابیوں کو راہ ملے گی۔ ایسی صورت میں وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں مارے جانے لگیں گے جن کا جنگ سے کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اگر سیل فون کو بم کے طور پر استعمال کرنے کا رجحان عام ہوا تو کوئی بھی شخص کسی جواز کے بغیر مارا جائے گا۔ یوں دنیا میں خرابیاں بڑھیں گی۔