احیائے اسلام کی تحریک۔ ایک تعارف (5)

271

جنرل ایوب خان نے پاکستان پر قبضہ تو اکتوبر 1958ء میں کیا لیکن وہ اس کی منصوبہ بندی کئی سال سے کررہا تھا اور امریکا سے براہ راست رابطے میں تھا۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ وہ باقاعدہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پے رول پر تھا اور اسے امریکا نے اقتدار سنبھالنے کی اس لیے شہہ دی تھی کہ اس کے ذریعے پاکستان پر امریکی ایجنڈا مسلط کیا جاسکے۔ چنانچہ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قابض ہوتے ہی امریکی ایجنڈے پر کام شروع کردیا۔ اس نے سب سے پہلے 1956ء کا آئین منسوخ کردیا جو بڑی حد تک اسلامی و جمہوری دفعات کا حامل تھا اور جس کے تحت فروری 1959ء میں عام انتخابات ہونے والے تھے۔ توقع کی جارہی تھی کہ ان انتخابات کے نتیجے میں ایک نمائندہ حکومت قائم ہوجائے گی اور پاکستان اسلامی و جمہوری راستے پر گامزن ہوجائے گا، جبکہ امریکا اس کے خلاف تھا وہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ آئین منسوخ ہونے اور ملک پر مارشل لا مسلط ہونے کے بعد عام انتخابات خواب و خیال ہو کر رہ گئے۔ جنرل ایوب خان نے ملک میں سیاست کو شجر ممنوع قرار دیا، سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی اور سیاستدانوں کو رسوائے زمانہ قانون ’’ایبڈو‘‘ کے تحت اہل قرار دے دیا۔ اس نے ابتدا ہی میں ترغیب و تحریص کے ذریعے جماعت اسلامی کو سیاست سے لاتعلق کرنے کی کوشش کی کیونکہ جماعت اسلامی احیائے اسلام کی توانا تحریک تھی اور ملک کے پورے نظام کو اسلام کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی تھی جبکہ امریکا اسے ایک سیکولر ملک کے طور پر دیکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ جنرل ایوب خان نے مولانا مودودی سے ملاقات کی اور بڑے فدویانہ لہجے میں مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’مولانا آپ نیک آدمی ہیں، عالم ہیں، محقق ہیں، مفسر ِ قرآن ہیں، آپ سیاست میں کیسے آگئے یہ تو سراسر گندگی ہے، گندے لوگوں کا کھیل ہے، آپ اس گند میں نہ پڑیں ہم آپ کو ایک اسلامی یونیورسٹی بنائے دیتے ہیں آپ اس کے سربراہ کی حیثیت سے اس میں اعلیٰ درجے کے اسلامی محقق اور ریسرچ اسکالرز تیار کریں اور اپنے علمی کاموں میں بھی ان سے مدد لیں، اس منصوبے کے لیے آپ کو جتنا بھی فنڈ درکار ہو ہم دینے کو تیار ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ سیاست میں خود کو ضائع نہ کریں ’’جنرل ایوب کی اس گفتگو میں بڑی لجاجت تھی وہ مولانا مودودی کو خوشامد کے ذریعے شیشے میں اُتارنا چاہتا تھا لیکن مولانا نے اس کا اثر قبول کیے بغیر فرمایا کہ سیاست بھی دور حاضر میں اجتماعی زندگی کا سب سے اہم شعبہ ہے، اسے گندے لوگوں کے سپرد نہیں کیا جاسکتا۔ سیاست کو گندگی سے پاک کرنا بھی کسی کی ذمے داری ہے اور یہ ذمے داری ہم ادا کرنا چاہتے ہیں۔ رہے میرے علمی مشاغل تو میں اپنا کام کررہا ہوں اور مجھے اپنے اس کام میں کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ مولانا کا یہ کھرا اور دو ٹوک جواب سن کر اس کے پسینے چھوٹ گئے۔ اس نے جب دیکھا کہ سیدھی انگلی سے گھی نہیں نکل سکتا تو اس نے انگلی ٹیڑھی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

جنرل ایوب نے امریکی ایجنڈے کے مطابق پاکستان کا نام تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اسے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ سے بدل کر ’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کرنا چاہا لیکن اس میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل ایوب خان کے پرنسپل سیکرٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی خود نوشت ’’شہاب نامہ‘‘ میں اس واقعے کی روداد لکھی ہے اور جنرل ایوب کو پاکستان کا نام تبدیل کرنے سے باز رکھنے کا کریڈٹ خود لینے کی کوشش کی ہے لیکن بات اتنی سادہ نہ تھی کہ فوجی آمر محض اپنے سیکرٹری کے کہنے سے فیصلہ بدل دیتا۔ دراصل پاکستان کا نام تبدیل کرنے کی خبریں اخبارات میں آچکی تھیں اور جماعت اسلامی کا اس پر شدید ردعمل بھی مشتہر ہوچکا تھا جبکہ خفیہ ایجنسیوں نے جنرل ایوب کو رپورٹ دی تھی کہ اس ایشو پر ملک گیر ہنگاموں کا امکان ہے جس سے حکومت بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے، چنانچہ جنرل ایوب خان نے خائف ہو کر نام کی تبدیلی کا سرکاری نوٹیفکیشن روک لیا اور امریکا تلملا کر رہ گیا۔ یہ محض نام کی تبدیلی نہ تھی بلکہ پاکستان کو عوامی جمہوریہ بنا کر اس کا حلیہ تبدیل کرنا مقصود تھا اور جماعت اسلامی اس پر سخت اسٹینڈ لے چکی تھی جبکہ تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس معاملے میں منقارِ زیر پر تھیں۔ جنرل ایوب خان نے مارشل لا 1962ء تک برقرار رکھا، بعدازاں یکم مارچ 1962ء کو نیا صدارتی آئین نافذ کرکے عوام سے اپنے نمائندے براہ راست منتخب کرنے کا حق بھی چھین لیا گیا اور بنیادی جمہوریتوں کا انوکھا نظام رائج کرکے آمریت کی جڑیں اور مضبوط کردی گئیں۔

جنرل ایوب خان نے اپنے فسطائی دور حکومت میں جو آمرانہ اقدامات کیے ان میں یونیورسٹی آرڈیننس کا اجرا اور عائلی قوانین کا نفاذ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں اس وقت اسلامی جمعیت طلبہ کی حکمرانی تھی اور بارک اللہ خان اس کے لیڈر تھے۔ یونیورسٹی میں اکثر ایوب آمریت کے خلاف نعرے گونجتے رہتے تھے، ان نعروں سے نجات حاصل کرنے کے لیے جنرل ایوب نے یونیورسٹی آرڈیننس نافذ کردیا اور طلبہ یونین پر پابندی لگادی اس پر شدید احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کی قیادت بارک اللہ کررہے تھے، چنانچہ انہیں گرفتار کرکے غیر معینہ عرصے کے لیے جیل میں بند کردیا گیا۔ عائلی قوانین بھی ایک آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیے گئے جس میں شرعی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی، اس پر جماعت اسلامی نے شدید احتجاج کیا اور مولانا مودودی نے فیملی لاز آرڈیننس کی غیر شرعی دفعات کو کھل کر بیان کیا۔ مزدوروں میں جماعت اسلامی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے لیبر فیڈریشن آف پاکستان پر پابندی لگادی گئی اور اس کے لیڈر مولانا عبدلامجید قریشی کو تین سال کے لیے قید کردیا گیا۔ ایوب حکومت کے آمرانہ اقدامات کے خلاف جماعت اسلامی کی معمول کی سرگرمیاں جاری تھیں کہ جماعت کی مجلس شوریٰ نے اکتوبر 1963ء میں لاہور میں جماعت کا کُل پاکستان اجتماع بلانے کا فیصلہ کیا۔ اجتماع کے انعقاد کے لیے منٹو پارک (جہاں بعد میں مینار پاکستان تعمیر ہوا) کا وسیع سبزہ زار تجویز ہوا۔ پنجاب میں اس وقت نواب امیر محمد خان آف کالا باغ گورنر تھا اس نے منٹو پارک میں اجتماع کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ آخر بڑی تک و دو کے بعد لاہور کی انتظامیہ نے باغ بیرون بھاٹی گیٹ میں اجتماع کا اجازت نامہ جاری کیا لیکن اجتماع میں لائوڈ اسپیکر کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس طرح عملاً اجتماع کو ناکام بنانا مقصود تھا۔ جماعت اسلامی نے اس پابندی کو چیلنج سمجھ کر قبول کیا اور ایک کامیاب اجتماع کرکے دکھا دیا۔ امیر جماعت کے افتتاحی خطاب کو عوام تک پہنچانے کے لیے اجتماع گاہ میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر مکبرین کھڑے کردیے گئے اور انہیں مولانا مودودی کے خطاب کی نقول تھمادی گئیں۔ مولانا اسٹیج سے جملے ادا فرماتے اور مکبرین انہیں دہراتے جاتے تھے اس طرح سامعین پوری توجہ سے خطاب سن رہے تھے کہ اچانک پولیس کی پشت پناہی میں غنڈوں نے جلسہ گاہ پر حملہ کردیا اور گولیاں چلنے لگیں، فائرنگ کا رُخ اسٹیج کی جانب تھا۔

امیر جماعت سے کہا گیا کہ وہ بیٹھ جائیں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر بیٹھنے سے انکار کردیا کہ اگر میں بیٹھ گیا تو یہاں کھڑا کون رہے گا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا، وہ اجتماع میں شرکت کے لیے گوجرہ سے آیا تھا۔ غنڈے واردات کے بعد فرار ہوگئے، حملہ آوروں کا خیال تھا کہ فائرنگ سے جلسہ اکھڑ جائے گا، لوگ بھاگ کھڑے ہوں گے اور اجتماع ناکام ہوجائے گا لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ مولانا مودودی نے اپنا خطاب جاری رکھا، لوگ دل جمعی سے سنتے رہے، جلسے کے منتظمین نے غنڈوں کے گرد گھیرا ڈال کر انہیں پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ پولیس کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ البتہ فائرنگ سے جماعت کا ایک کارکن جان کی بازی ہار گیا۔ یہ سراسر سرکاری واردات تھی جس کے خلاف پولیس ایف آئی آر بھی درج کرنے کو تیار نہ تھی۔ چنانچہ مولانا مودودی نے فرمایا ’’ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ قاتل پکڑا جاتا ہے یا نہیں اور اسے کوئی سزا ملتی ہے یا نہیں۔ یہ مقدمہ کہیں اور درج ہوچکا ہے، اللہ کا فیصلہ ان شاء اللہ وہیں سے ہوگا اور ایسا فیصلہ ہوگا جس کا تصور وہ لوگ نہیں کرسکتے جو اللہ کی صفت انتقام کو بھول چکے ہیں۔ پھر کچھ عرصے بعد پوری دنیا نے دیکھا کہ اس غنڈہ گردی کے اصل محرک نواب امیر محمد خان کالا باغ کو اس کے بیٹے نے گولی مار دی اور اس کی لاش کئی دن تک گھر میں پڑی سڑتی رہی۔ (جاری ہے)