مولاناڈے

135

پاکستانی سیاست میں جب ہر زبان پر ’’مولانا‘‘ ہو تو اس سے ایک ہی شخصیت مراد ہوتی ہے ’’مولانا فضل الرحمن‘‘۔ پاکستانی سیاست مولانا کے بغیر ایسی ہی ہے جیسے سعودی عرب جانا اور عمرہ کیے بغیر لوٹ آنا۔ عہد روما کے ایک کتبے پر لکھا تھا ’’میں نے کبھی کسی فلسفی کی باتوں پر دھیان نہیں دیا اس لیے خوش رہا‘‘ پاکستان کے میدان سیاست میں مولانا کو فراموش کرکے خوش رہنا ممکن نہیں۔ اتوار 15 ستمبر 2024 پاکستان میں ’’مولانا ڈے‘‘ تھا جب اپوزیشن اور حکومت دونوں مولانا کے ڈرائنگ روم کے قالین اور پردے بنی ہوئی تھیں۔ اتوار کے دن حکومت نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس بلایا ہوا تھا لیکن یہ اجلاس اس لیے منعقد نہ ہوسکے کہ مولانا نے آئین کی چھبیسویں ترمیم پر حکومت کی حمایت کرنے کی حامی نہیں بھری تھی۔ ترمیم کی حمایت کی یقین دہانی نہ کروانے پر وفاقی کابینہ کے اجلاس کا انعقاد بھی نہ ہوسکا۔ مولانا کسی کو پسند ہوں یا نہ ہوں ان کا کوئی نعم البدل نہیں۔ مولانا کسی کے ساتھ بدتمیزی سے پیش نہیں آتے حتیٰ کہ پی ٹی آئی والوں سے بھی نہیں۔ وہ انہیں بھی اپنی اقتدا میں نماز پڑھوا دیتے ہیں۔

اتوار کے دن حکمران اتحادکے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ 14 گھنٹے ایوان کی راہداریوں میں گردش کرتے رہے۔ اس دوران کئیوں نے تو نماز بھی پوری پڑھ ڈالی۔ وہ پندرہ گھنٹے بھی گردش کرسکتے تھے، دعا بھی طویل مانگ سکتے تھے اگر مولاناکے ماننے کی امید ہوتی۔ جس طرح بادام دل کے لیے، لوبیا گردے کے لیے اور سونف آنکھوں کے لیے مفید ہے اسی طرح مولانا کی تائید آئینی ترمیم کے لیے مفید ہی نہیں بلکہ از بس ضروری سمجھی جاتی ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے سلسلے میں حکومتی حلقوں سے جب بھی میجک عدد کے پورا ہونے کی بابت پوچھا گیا میجک عدد کی تفصیل بتانے کے بجائے ان کا ایک ہی جواب ہوتا تھا ’’مولانا نے حمایت کی یقین دہانی کرادی ہے‘‘۔ جمعیت علماء اسلام کی قومی اسمبلی میں آٹھ اور سینیٹ میں پانچ سیٹیںہیں، اتنی سیٹوں کے باوجود حکمران اتحاد ہو یا پی ٹی آئی سب ان کے گلے لگنے اور گھٹنوں کو چھونے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ مولانا گھٹنوں تک آنے کا موقع تو سب کو دیتے ہیں لیکن گلے پڑنے کے لیے بہت سوچ سمجھ کر انتخاب کرتے ہیں۔

حکمران اتحاد کی کوشش تھی کہ آئینی ترمیم کے لیے مولانا کی حمایت حاصل ہوجائے جب کہ پی ٹی آئی چاہ رہی تھی کہ مولانا عربی، اردو، پشتو، انگریزی کسی بھی زبان میں ’’ہاں‘‘ نہ کہہ سکیں اور آئینی ترمیم منظور نہ ہوسکے۔ مولانا نے دل کی بات تو کسی سے نہ کی البتہ سب کو اپنی امامت میں نمازیں پڑھواتے رہے۔ سب یہی سمجھے کہ ان کی دعائیں قبول ہوگئی۔ پی ٹی آئی کا وفد مولانا سے مذاکرات کرکے رخصت ہوا۔ صحافیوں نے بے تابی سے پوچھا ’’مولانا مذاکرات کتنے نتیجہ خیز رہے؟‘‘ مولانا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’’دو مونگ پھلیوں کے پیکٹ، چار ڈبے بسکٹ اور چھے پیالی چائے‘‘۔ عطا تارڑ میڈیا سے یہی کہتے رہے کہ حکومت کو مولانا کی حمایت حاصل ہوگئی ہے۔ اتوار کے دن ثابت ہوا صرف مولانا wise اور باقی سب otherwise ہیں۔

چھبیسویں آئینی ترمیم اندھیرے میں ایک ایسی واردات تھی جس کی تفصیلات کسی کے علم میں نہیں تھی۔ کہا جارہا ہے کہ نوازشریف کو بھی نہیں۔ حکومت مولانا کی تائید تو چاہتی تھی لیکن آئین کا مسودہ دکھائے بغیر۔ جب کہ مولانا کا موقف یہ تھا کہ ترمیم کا مسودہ دیکھے بغیر اس پر اپنا موقف کیسے دیا جاسکتا ہے۔ مولانا کو کچھ نہ کہنا ہو تو پھر بھی وہ دوبار سوچتے ہیں۔ اتنی اہم آئینی ترمیم جو آئین کا پورا حلیہ بدل کر رکھ دے گی اس کے باب میں مولانا سے ’’تفصیلات‘‘ طے کیے بغیر یہ امید کیسے کی جاسکتی تھی کہ وہ جزاک اللہ کہہ کر آمادگی ظاہر کردیتے۔ ویسے بھی انتخابات کے بعد مولانا ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے خوش نہیں تھے۔ انتخابات کو بھی وہ جعلی قرار دیتے رہے ہیں۔ حکومت سازی کے وقت ان دونوں جماعتوں نے مولانا کو جس طرح نظر انداز کیا تھا اس کے بعد مولانا چھبیسویں ترمیم کی صورت پی ٹی آئی اور ججوں کو کھڈے لائن لگانے کی ’’اسٹوری‘‘ سن کر تو خوش نہیں ہوسکتے تھے۔

گمان یہ کیا جارہا تھا کہ حا لیہ انتخابات کے بعد مولانا کی حیثیت کم ہو گئی ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی ان کا سیاسی وزن گھٹ گیا ہے۔ انتخابات کے بعد حکمران اتحاد کے نمبر پورے تھے۔ اگر کچھ کسر تھی تو وہ اسٹیبلشمنٹ نے پوری کردی۔ اس لیے حکومت نے مولانا کو لفٹ نہیں کرائی۔ چھبیسویں ترمیم کے موقع پر مولانا نے دکھا دیا کہ اگر سیاست آتی ہو تو کم سیٹوں کے باوجود بھی حکومت کے رنگ میں بھنگ ڈالا جاسکتا ہے اور خوب ڈالا جاسکتا ہے۔ جس ترمیم کے لیے حکومت مع اسٹیبلشمنٹ بائولی ہورہی تھی مولانا نے اسے بے معنی چیز بنا کر رکھ دیا اور بتا دیا کہ ان سے کوئی سیاست نہ کرے۔

گفتگو ریختے میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے

چھبیسویں ترمیم مسائل کا ایسا حل ہے جس پر ہنسا جاسکتا ہے اور نہ غصہ کیا جاسکتا ہے۔ ہنسنا اس لیے ممکن نہیں اور غصہ کرنا بھی اس لیے ممکن نہیں کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جب بھی مولانا نے حکومت سے دریافت کیا کہ اس کے اندر کیا ہے جواب ملا صبر کریں۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا۔ حکومت شاید بھول گئی تھی کہ ڈاکٹروں نے مولانا کو میٹھے سے منع کر رکھا ہے۔ انہیں شوگر ہے۔ فی الحال چھبیسویں ترمیم کا معاملہ ٹل گیا ہے اس ترمیم میں اتنی ترامیم ہیں کہ شاید حکومت کو پھر کسی ترمیم کی ضرورت رہتی اور نہ مولانا کی۔مولانا یہ بات سمجھ گئے۔ کسی نے کرنل قذافی سے پوچھا ’’فوجی اعزاز سے دفن ہونے کے لیے آدمی کو کیا ہونا چاہیے‘‘ جواب ملا ’’مردہ‘‘۔ اس سے پہلے کہ آئینی ترمیم پاکستانی سیاست کی تدفین کرتی مولانا نے اسے دفن کردیا۔ مولانا سیاست کے ایسے کھلاڑی ہیں کہ وہ کسی بھی کھیل کو پلٹ سکتے ہیں۔

سیاستدانوں کے پاس ہر مسئلے کے کئی حل ہوتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے معاملے میں حکومتی اتحاد کو بڑی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن بقول بلاول زرداری کے آئینی ترمیم ان کی ضرورت ہے۔ جلدیا بدیر حکومت اس معاملے کو دوبارہ اٹھائے گی۔ جن کی گھڑیاں سرکاری گھڑی سے آگے پیچھے ہیں تب تک ان کی گھڑیاں بھی کسی نہ کسی طور ایڈ جسٹ ہو جائیںگی۔ اللہ کی قدرت بہت بڑی ہے۔ وہ کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ پیر پگاڑا نے ایک موقع پر کہا تھا ’’دیکھتے ہیں پہلے کون جاتا ہے حکومت یا عوام‘‘ عوام تو خیر سے کہیں نہیں جارہی حکومت البتہ اپنی ڈوبتی نائو کو چھبیسویں ترمیم کے ذریعے کھینا چاہتی ہے۔ چھبیسویں ترمیم کو حکومتی اتحاد نے جس بھونڈے طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ مسائل کو ڈھونڈنے، انہیں غلط سمجھنے اور ان کے غلط حل تلاش کرنے کا نام پاکستانی سیاست ہے۔