حکمت

346

عدالت عظمیٰ کے سب سے سینئر جج جناب جسٹس سید منصور علی شاہ نے اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کی سیاسی جماعتوں کے درمیان تقسیم کے حوالے سے کہا: قانون کی منطق کو دیکھنا چاہیے، ان سے گزارش ہے: قانون کی منطق نہیں ہوتی، حکمت ہوتی ہے۔ ح ک م حروفِ اصلی سے ایک لفظ حُکم بنتا ہے اور آج کل اسے Writ یعنی حاکم کے اختیار واقتدار سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی سے حکومت، حَکَم اور حاکم کے کلمات نکلے ہیں۔ دوسرا لفظ حِکمت بنتا ہے اور حکمت کے معنی ہیں: ’’دانائی، دور اندیشی، انصاف، حِلم، بردباری، فلسفہ، حق کے موافق کام اور کام کی درستی‘‘۔ یعنی اگر حکومتی اختیار واقتدار کو اندھا دھند استعمال کیا جائے تو یہ فسطائیت ہے، جبر وجور ہے، ظلم وعدوان ہے، انصاف کا فقدان ہے اور معاشرے میں انتشار اور محرومیوں کا باعث ہے۔ لیکن اگر اسی اختیار واقتدار کو حکمت سے استعمال کیا جائے تو اس میں معاشرے کے لیے خیر، صلاح، فلاح، عدل، توازن، حقوق کی پاس داری اور امن وعافیت ہے۔

ہمارے درسیات کے علوم میں حکمت اور فلسفہ ہم معنی ہیں، فلسفے کی ابتدائی کتاب کا نام ’’ہدایۃ الحکمت‘‘ ہے، علامہ میر سید شریف جرجانی لکھتے ہیں: (۱) ’’بشری استطاعت کے مطابق اشیاء کے حقائق کو ان کی اصل کے مطابق جاننے اوراس کے تقاضوں پر عمل کرنے کا نام حکمت ہے، پھر اس کی دو قسمیں ہیں: حکمتِ علمی اور حکمت عملی۔ (۲) ’’کلام کا حق کے موافق ہونا حکمت ہے‘‘، (۳) ’’کلام کا حشو وزوائد سے پاک ہونا حکمت ہے‘‘۔ (۴) ’’کسی چیز کو اُس کے صحیح مقام پر رکھنا حکمت ہے‘‘، (۵) ’’جس کام کا انجام اچھا ہو، وہ حکیمانہ ہے، اسی کو عاقبت اندیشی، دور اندیشی اور بصیرت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تدبیر اور تدبُّر کے معنی بھی یہی ہیں کہ کوئی بات کہنے یا کام کرنے سے پہلے اُس کے انجام، نتائج اور ثمرات پر غور کیا جائے۔ صاحبِ تدبیر کو عربی میں مُدَبِّر اور انگریزی میں Statesman کہتے ہیں۔ موجودہ دنیا کا المیہ یہی ہے: ’’حکمران، سیاست دان اور قائدین تو ہیں، لیکن پوری دنیا پر نظر ڈالی جائے تو مدبّرین کا فقدان ہے، اس لیے دنیا میں ظلم ہے، عدوان ہے، عدم توازن ہے، بے چینی ہے، غزہ جیسے المیے دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ عالمی برادری بے بس یا بے حس ہے، سب کے دل ودماغ اور آنکھوں پر عصبیتوں کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ علامہ راغب اصفہانی نے سُدّی کے حوالے سے لکھا: ’’حکمت کے معنی نبوت کے ہیں‘‘، کیونکہ نبوت اُن تمام کمالات پر محیط ہوتی ہے جو حکمت کے معانی میں مستور ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’وہ جسے چاہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت دی گئی تو بے شک اسے خیر کثیر سے نوازا گیا اور صرف اہلِ دانش ہی نصیحت قبول کرتے ہیں‘‘۔ (البقرہ: 269) امام رازی نے بھی حکمت کے ایک معنی ’’نبوت‘‘ بتائے ہیں اور قرآن کی اس آیت سے استشہاد کیا ہے: ’’بے شک ہم نے آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت (نبوت) عطا کی تھی اور ہم نے ان کو ملکِ عظیم عطا کیا تھا‘‘۔ (النسآء:54) رسول اللہؐ کے فرائض نبوت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’(اللہ) وہ ہے جس نے اُمیوں میں انھی میں سے ایک عظیم رسول کو بھیجا، وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتے ہیں، اُن کا تزکیہ کرتے ہیں اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔ (الجمعہ: 2) امام رازی نے یہاں حکمت سے فرائض اور سُنتیں مراد لی ہیں، نیز یہ بھی لکھا ہے: ’’کتاب‘‘ سے مراد قرآنِ کریم اور ’’حکمت‘‘ سے مراد اس کے معانی ومطالب ہیں، جن کا ماخذ احادیثِ مبارکہ یعنی آپؐ کے اقوال، افعال، تقریرات اور آپ کے احوالِ مبارکہ ہیں۔ قرآنِ کریم نے دعوتِ دین کے لیے بھی حکمت کا اسلوب اختیار کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ’’(لوگوں کو) حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اپنے ربّ کے راستے کی طرف بلائو اور احسن طریقے سے مباحثہ کرو‘‘۔ (النحل: 125) یہاںحکمت سے مراد ہے: ’’مخاطَب کی ذہنی، فکری اور علمی استعداد کے مطابق اسے دعوت دی جائے، دین کے مبلغ اور مخاطَب کے درمیان ذہنی اور فکری مناسبت ہوتاکہ پیغامِ حق اس کے دل ودماغ میں جگہ پائے۔

جناب لقمان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی‘‘، (لقمان: 12) امام ابواسحاق احمد نیشاپوری روایت کرتے ہیں: ’’سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: ایک شخص کا لقمان کے پاس سے گزر ہوا، لوگ ان کے اردگرد جمع تھے، اس نے کہا: تم وہ سیاہ فام شخص نہیں ہو جو فلاں علاقے میں بکریاں چرایاکرتا تھا، لقمان نے کہا: ہاں! وہ میں ہی تھا!، اس نے پوچھا: پھر تم کو یہ حکمت اور دانائی کیسے ملی، انہوں نے کہا: سچ بولنے، امانت داری، فضول اور غیر متعلق باتوں کو چھوڑنے سے‘‘، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’وہ لوگ جو لغو (اور بے مقصد) باتوں سے اعراض کرتے ہیں‘‘، (المومنون: 3) نیز فرمایا: ’’اور جب وہ کوئی لغو بات سنتے ہیںتو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں‘‘۔ (القصص: 55)

سفیان بیان کرتے ہیں: لقمان سے پوچھا گیا: لوگوں میں سب سے بدتر کون ہے، لقمان نے کہا: وہ شخص جس کو اس کی پروا نہ ہو کہ لوگ اس کو برا کام کرتے ہوئے دیکھ لیں گے، اُن سے کہا گیا: تم کتنے بدصورت ہو، لقمان نے کہا: تم نقش میں عیب نکال رہے ہو یا نقّاش (خالق) میں‘‘، (الکشف والبیان) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’اللہ وہ ہے جو (مائوں کے) رحموں میں، تمہاری جو صورت چاہتا ہے بنادیتا ہے‘‘۔ (آل عمران: 3) پس جو چیز انسان کے اپنے اختیار میں نہ ہو، اس پر اللہ تعالیٰ کے ہاں جزا وسزا کا مدار نہیں ہوتا، جزا وسزا کا مدار صرف اُن امور میں ہوتا ہے جن کو انسان اپنی صوابدید سے اختیار کرتا ہے۔

الغرض حالیہ برسوں میں ہم نے عدالتوں میں منطق ہی دیکھی، حکمت نہیں دیکھی، یہی وجہ ہے کہ عدالتی فیصلے قوم کی مزید تقسیم در تقسیم کا باعث بنے، ہر شخص پر عیاں ہے کہ کس جج کا جھکائو کس طرف ہے اور کب کون سا فیصلہ صادر ہوگا، ایک ہی بنچ، ایک ہی عدالت، وہی جج، مگر آئین کے آرٹیکل A 63 کی تشریح کی بابت ایک وقت میں ایک فیصلہ آتا ہے اور دوسرے موقع پر اس کے برعکس فیصلہ آتا ہے، ایک فیصلے میں کہا گیا: ’’اگر پارلیمنٹ کا رکن تحریکِ عدمِ اعتماد کے وقت اپنی پارٹی سربراہ کی ہدایت کے خلاف ووٹ دیتا ہے، تو اس کا ووٹ گنا جائے گا اور بعد کو پارٹی سربراہ کے ریفرنس کے نتیجے میں وہ پارلیمان کی نشست سے محروم ہوجائے گا، دوسرے فیصلے میں کہا گیا: اس کا ووٹ شمار ہی نہیں کیا جائے گا اور وہ پارلیمان کی رکنیت سے بھی محروم ہوجائے گا‘‘۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے: جب اس کا ووٹ شمار نہیں ہی کیا گیا تو اس کا جرم متحقق (Establish) ہی نہیں ہوا، تو رکنیت سے محرومی کی سزا کس بات پر دی جائے گی۔ اسی طرح ایک فیصلے میں کہا جاتا ہے: ’’رکنِ اسمبلی پارٹی سربراہ کی ہدایت پر ووٹ دے گا، جبکہ دوسرے فیصلے میں کہا جاتا ہے: ’’رکن اسمبلی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کی ہدایت پر ووٹ دے گا‘‘۔ الغرض ہماری عدالتوں میں اس طرح کے تضادات اور عجوبے سرزد ہوتے رہتے ہیں، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ایسے فیصلوں کے پیچھے نہ کوئی آئینی وقانونی اصول ہوتا ہے اور نہ کوئی حکمت کارفرما ہوتی ہے، شاید منطق کارفرما ہو، جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ بعض لوگوں کے بقول آج کل جج صاحبان مقدمے کے حقائق وشواہد کو دیکھ کر نہیں، بلکہ فریقِ مقدمہ کے چہرے کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں، اسی لیے عالی مرتبت جج صاحبان اپنے کردار سے عزت کمانے کے بجائے قانونِ توہینِ عدالت کی دہشت کو ذریعۂ عزت سمجھتے ہیں، ہماری نظر میں یہ کسی جج کے لیے مقامِ افتخار نہیں ہے۔ ان شاء اللہ ہم قانونِ توہینِ عدالت کی بابت بھی عنقریب لکھیں گے، حدیث پاک میں میں ہے: نبیؐ نے فرمایا: قاضیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جائیں گے، پس جس نے حق کو پہچانا اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا تو وہ جنت میں جائے گا اور جس نے حق کو پہچاننے کے باوجود ناحق فیصلہ کیا تو وہ جہنم میں ہوگا اور جس نے جہالت پر مبنی فیصلہ کیا تو وہ بھی جہنم میں جائے گا‘‘۔ (ابودائود)

مقامِ غور ہے: ماضی میں جج صاحبان نے رِکوڈک اور کارکے رینٹل وغیرہ کی بابت فیصلے کیے اور اُس کی پاداش میں پاکستان کو عالمی سطح پر ذلت ورسوائی اور تاوان کا سامنا کرنا پڑا۔ اگریہ معزز جج صاحبان عالمی قوانین سے نابلد تھے، تو اُن کو فیصلہ کرنے سے پہلے عالمی قوانین اور بین الاقوامی معاہدات کے ماہرین سے رائے لینی چاہیے تھی اور اگر بین الاقوامی معاہدات کی بابت عالمی قوانین سے باخبر ہونے کے باوجود یہ فیصلے کیے تو یہ اُس سے بھی بڑا جرم ہے۔