اب فوج کے حق میں بات کوئی قبول نہیں کررہا،فضل الرحمن

59

ملتان(خبر ایجنسیاں +مانیٹرنگ ڈیسک) جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ میں نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب فوج کے خلاف کوئی بات سننے کو تیار نہیں تھا اور آج دیکھ رہا ہوں کہ فوج کے حق میں بات کرنے کو کوئی قبول نہیں کررہا، یہ ہمارے لیے بھی دکھ کی بات ہے ادارے حدود میں رہتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق کام کریں تو ملک بھی طاقت ور ہوگا اور عوام بھی مطمئن ہوں گے۔ عدلیہ میں آئینی ترامیم کا حکومتی مسودہ مل گیا مسودے میں بنیادی حقوق کا دائرہ کار محدود کرکے ملٹری کے کردار میں اضافہ کردیا گیا ہے اسی لیے حمایت سے انکار کیا۔ملتان میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے کہا کہ وہ ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع اور ججز کی تعداد میں اضافے کی تجاویز واپس لے رہی ہے مگر وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز موجود ہے جے یو آئی ہمارا ساتھ دے مگر ہم نے انہیں کہا ہے کہ یہ محض عنوان پہلے مسودے کا ڈرافٹ دکھایا جائے پھر بات ہوگی۔انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کے معاملے میں حکومت کسی قسم کا مسودہ دینے پر آمادہ نہیں ہورہی تھی ایک کاپی انہوںنے پیپلز پارٹی کو دی بالآخر ایک کاپی ہمیں دی، یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ دونوں کاپیاں ایک جیسی ہیں یا نہیں؟ جو کاپی ہمیں دی گئی ہے نہیں معلوم کہ نئی کاپی میں کچھ اضافہ ہے یا کچھ شقوں کی کٹوتی کی گئی ہے، حکومت ایوان سے توقع کررہی تھی کہ بغیر تیاری کہ ایوان ان کا ساتھ دے۔انہوں نے کہا کہ مسودے کی کاپی کا ہمارے وکلا نے جائزہ لیا ہمیں مسودہ دیکھ کر افسوس ہوا، آئین ہر شہری کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے مگر اس آئینی ترامیم میں ملٹری کے حوالے سے ایک استثنا دیا گیا ہے لیکن مسودے میں بنیادی حقوق کا دائرہ کار محدود کرکے ملٹری کے کردار میں اضافہ کردیا گیا ہے، استثنا شق کو توسیع دی گئی ہے اور آئین میں موجود انسانی حقوق کا چیپٹر محدود کیا گیا۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ بلاول تشریف لائے اور ہم دونوں کے درمیان اتفاق ہوا ہے کہ ہم بھی ایک مسودہ بنائیں اور وہ بھی ایک مسودہ بنائیں جسے ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرکے اتفاق رائے کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہے جسے آئین متعین کرتا ہے ادارہ اگر دائرہ کار میں رہے تو خوش اسلوبی سے کام ہو بصورت دیگر ملک کمزور ہوگا، آج نظر آرہا ہے کہ جب سے اسٹیبشلمنٹ نے طاقت ور بننے، انتخابات پر اثر انداز ہونے اور اپنی مرضی کی حکومت لانے کی کوشش کی تو نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملک کمزور ہورہا ہے،ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے مسودے کی تیاری پر کام شروع کردیا ہے جس میں ہفتہ 10 دن لگ جائیں گے، ہمارا اتفاق آئینی عدالت کے قیام پر ہے لیکن یہاں بدنیتی نظر آئی اس لیے انکار کیا، ملٹری کو استثنا میں توسیع دے کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی اس لیے حمایت نہیں کی۔