افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

251

خطابِ مدراس
ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ پورے استقلال کے ساتھ اپنی جگہ جم کر دعوتِ اصلاح اور سعی انقلاب میں منہمک رہے اور اپنے مقام سے ہرگز نہ ہٹے جب تک اس کا وہاں رہنا قطعی غیر ممکن نہ ہوجائے یا پھر وہاں دعوتِ حق کے بار آورہونے کی کوئی امید باقی نہ رہے۔
آنے والے دنوں میں آپ بہت کچھ ہجرت و مہاجرت کی باتیں سنیں گے (تقسیم کے قبل) اور بعید نہیں کہ عام رو کو دیکھ کر یا خیالی اندیشوں سے سہم کر آپ میں سے بہتوں کے پاؤں اکھڑنے لگیں، لیکن آپ جس مشن کے حامل ہیں اس کا مطالبہ یہ ہے کہ آپ میں سے جو شخص جہاں ہے، وہیں ڈٹ جائے اور اپنی دعوت کو اپنے ہی علاقے کی زندگی پر غالب کرنے کی کوشش کرے۔ آپ کے حال جہاز کے اس بہادر کپتان کا سا ہونا چاہیے جو آخر وقت تک اپنے جہاز کو بچانے کی کوشش کرتا ہے اور ڈوبتے ہوئے جہاز کو چھوڑنے والوں میں سب سے آخری شخص وہی ہوتا ہے۔

حالات خواہ کتنے ہی حوصلہ شکن اور صبر آزما ہوں، بہرحال مستقل نہیں ہیں بلکہ عنقریب بدل جانے والے ہیں۔ اس وقت آپ کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ صبر اور حسنِ اخلاق سے اپنا کام کیے جائیں۔ الجھنے والوں کے ساتھ نہ الجھیں، نادان لوگوں کی مخالفتوں پر برافروختہ نہ ہوں… وہ اگر جہالت اور جاہلیت پر اتر آئیں تو آپ شریف آدمیوں کی طرح ان کے مقابلے سے ہٹ جائیں اور ان کی زیادتیوں کو خاموشی سے سہہ لیں۔

اس کے ساتھ آپ کو چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ معقول طریقے سے اپنی دعوت، مسلم اور غیر مسلم سوسائٹی کے ان سب لوگوں تک پہنچائیں جو معقول بات کو سننے اور اس پر کھلے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہوں۔ اس طریقے پر اگر آپ نے عمل کیا تو ایک طرف آپ کی اخلاقی برتری کا سکہ بیٹھ جائے گا اور دوسری طرف وہ ذہنی فضا ایک حد تک تیار ہوجائے گی جو آنے والے حالات میں مؤثر کام کے لیے ضروری ہے‘‘۔ (روداد، پنجم)
٭…٭…٭

دعوت اسلامی کے تین نکات
اگر ہم اپنی اس دعوت کو مختصر طور پر صاف اور سیدھے الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ تین نکات پر مشتمل ہوگی :
(1) یہ کہ ہم بندگان خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں۔
(2) یہ کہ جو شخص بھی اسلام قبول کرنے یا اس کو ماننے کا دعویٰ یا اظہار کرے اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔

(3) یہ کہ زندگی کا نظام جو آج باطل پرستو ں اور فساق وفجار کی رہنمائی اور قیادت وفرمانروائی میں چل رہا ہے اور معاملات دنیا کے انتظام کی زمام کار جو خدا کے باغیو ں کے ہاتھ میںآگئی ہے۔ ہم یہ دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی وامامت نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے مومنین صالحین کے ہاتھ میں منتقل ہو۔
یہ تینوں نکات اگرچہ اپنی جگہ بالکل صاف ہیں ایک مّدت دراز سے ان پر غفلتو ں اور غلط فہمیوں کے پردے پڑے رہے ہیں۔ اس لیے بدقسمتی سے آج غیرمسلموں کے سامنے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے سامنے بھی ان کی تشریح کرنے کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ (دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار)