علما کا فریضہ

اس وقت علما اور تعلیم یافتہ طبقے کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے، جب کسی دعوت یا کوشش کے ساتھ اعلیٰ طبقے کے وہ لوگ جو ذہین اور صاحب فکر سمجھے جاتے ہیں اور جو دین کا گہرا علم رکھتے ہیں، تو اس تحریک میں سنجیدگی، گہرائی اور پختگی پیدا ہوجاتی ہے اور اس کے بارے میں یہ امید ہوتی ہے کہ وہ کسی غلط راستے پر نہیں پڑے گی، اس تحریک میں جذباتیت نہیں ہوگی، اس میں عامیانہ اور متبذل انداز نہیں ہوگا، اس وقت عالم اسلام میں علما کی اور دینی جماعتوں اور قائدین کی ذمے داری بہت بڑھ گئی ہے، یہ ذمے داری ہر زمانے میں زیادہ رہی ہے، لیکن اس زمانے میں وہ خاص طور پر بہت عظیم بن گئی ہے کہ وہ صحیح رہنمائی کریں گے اور تحریک دعوت اور جدوجہد کو سطحیت سے بچائیں گے، اس کے متعلق یہ تصور اور یہ تاثر قائم ہونے نہ دیں گے کہ دریا کا حباب ہے، بلکہ اس کے متعلق یہ تاثر دیں گے کہ اس کی جڑیں گہری اور علم ودین کی زمین میں پیوست ہیں۔

اسلام زمانے کا رفیق ہی نہیں، راہنما ہے
اس وقت عالم اسلام میں اہل علم کی سب سے بڑی ذمے داری یہ تھی کہ یہ تاثر نوجوان طبقے میں نہ آنے پائے کہ اسلام محض طاقت اور حکومت کے بل پر قائم رہ سکتا ہے، وہ زمانے کی تبدیلیوں اور علم وفن کی ترقیوں کا ساتھ نہیں دے سکتا، وہ اس زمانے میں چلنے والی چیز نہیں، وہ ابتدائی اور محدود زمانے کا ساتھ دے سکتا تھا، جب انسانیت عہد طفولیت میں تھی، لیکن اس پْر پیچ، ترقی یافتہ اور وسیع تمدن کے دور میں اسلام زندگی کا ساتھ نہیں دے سکتا، سب سے بڑی خدمت علما کی یہ تھی کہ اسلامی ملکوں میں اس چیلنج کو قبول کرتے اور اپنی ذہانت سے، گہرے مطالعے سے، اصول فقہ سے کام لینے کی صلاحیت سے، کتاب وسنت کے ان ازلی اور لافانی اصولوں کی مدد سے، جو ہر زمانے میں نسل انسانی کی رہنمائی کرسکتے ہیں، اس تمدن کو اسلام کے اصولوں کے مطابق رکھنے کی کوشش کرتے، اس میں اگر کسی ملک میں ذرا بھی کچھ کمی ہو گی، اس کا نتیجہ کم سے کم جو ہوسکتا ہے، وہ بے عملی اور شریعت کے خلاف زندگی ہے اور بڑے سے بڑا نقصان جو ہو سکتا ہے وہ الحاد اور دین سے بغاوت ہے، کسی اسلامی ملک میں آپ دیکھیں گے کہ دوسرا نتیجہ ظاہر ہوا اور کسی اسلامی ملک میں دیکھیں گے کہ پہلا نتیجہ ظاہر ہوا، حالانکہ دونوں نتیجے اسلام کے حق میں سم قاتل ہیں، سب سے بڑا کام اس وقت یہ ہے کہ ہم یہ ثابت کریں کہ اسلام اپنی روح اور مقاصد کے ساتھ اور اپنے انہی اصولوں کے ساتھ زندگی کا نہ صرف ساتھ دے سکتا ہے، نہیں، بلکہ وہ نئی زندگی کی راہنمائی کرسکتا ہے، اس کو خطروں سے صرف وہی بچا سکتا ہے اور وہ تمدن صحیح انسانی تمدن نہیں اور وہ ریاست معتدل اور محفوظ ریاست نہیں جو اسلام کے اصولوں سے ہٹ جائے، یہ ثابت کرنا ہمارا سب سے بڑا فریضہ ہے۔

اسلام کو ہر مفاد پر ترجیح دیجیے
علما اور دانش وروں کا دوسرا فریضہ یہ ہے کہ اسلام کے مفاد کو ہر جماعت، ہر ادارے، ہر مکتب ِ فکر اور ہر گروہ کے مفاد پر ترجیح دیں، میں آپ سے صاف کہتا ہوں کہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ سب جماعتوں کو مٹا دینا پڑے گا، سارے نشانوں کو نکال دینا پڑے گا سارے ناموں کو ختم کر دینا پڑے گا، سارے بورڈوں کو مٹا دینا پڑے گا، اور اسلام اس ملک میں غالب رہے گا، تو ہمیں ایک منٹ بھی اس میں پس وپیش نہیں ہونا چاہیے، ہمیں دین وملت کا مفاد ہر جماعت سے عزیز ہونا چاہیے، سہرا کسی کے سر بندھے سہرا ہونا چاہیے، حضورؐ کا معجزہ یہ تھا کہ صحابہ کرامؓ کے دل سے یہ شوق نکل گیا تھا کہ ان کا کارنامہ سمجھا جائے۔
بخاری کی روایت ہے کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے ایک مجلس میں واقعے کے طور پر ذکر کیا کہ ہم لوگ ایک غزوے میں گئے تھے، وہاں ہمارے پاؤں میں چھالے پڑ گئے تھے، ہم نے چھیتھڑے لپیٹ لیے، اسی وجہ سے وہ غزوہ ذات الرقاع کہلاتا ہے، یہ کہنے کے بعد ان کو ایک دم سے یہ احساس ہوا کہ میں نے یہ کیوں کہا، کہیں میرا یہ عمل باطل نہ ہوگیا ہو، کہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ نہ کہہ دیا جائے کہ لوگوں نے سن لیا اور بڑا مجاہد سمجھا، یہ کافی ہے، اب ہم سے کیا لینے آئے ہو؟ تو بخاری شریف میں خاص طور سے ہے کہ انہوں نے کہا کہ کاش! میں یہ نہ کہتا، ان کو اس کا افسوس رہا۔ (بخاری) آج اس پر زیادہ زو رہے کہ یہ کارنامہ کس کی طرف منسوب ہو گا، ایک صاحب تھے غازی محمود دھرم پال، مجھے ان کا ایک لطیفہ یاد آگیا، ایک تقریر میں کہنے لگے: اخباروں میں چھپتا ہے کہ فلاں آدمی فلاں صاحب کے دست حق پرست پر اسلام لایا، تاکہ اس کے اسلام قبول کرنے کے ساتھ ان کے دست حق پرست کی بھی شہرت ہو جائے، بلکہ دست حق پرست کی شہرت زیادہ منظور ہے، قبول اسلام کی شہرت ہو یا نہ ہو، یہاں تک کہ بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ کسی بڑے آدمی کا جنازہ ہوتا ہے، لپک کر پہنچ جاتے ہیں جنازے کی نماز پڑھانے کے لیے، اس لیے کہ اخبار میں کل یہ خبر چھپ جائے گی، یہ جذبہ بڑا نقصان پہنچاتا ہے، دیکھیے! جب کسی کا عزیز جاں بلب ہوتا ہے، تو اس کے عزیزوں میں کسی کو یہ خیال نہیں ہوتا کہ تعریف کس کی ہو، سب کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ ہمارا مریض بچ جائے، حکیم کے سر سہرا بندھے یا ڈاکٹر کے، تو اس وقت عالم اسلام بیمار ہے، آپ کا ملک بیمار ہے، آپ اس وقت بھول جائیے کہ کس کے حساب میں لکھا جائے گا اور تاریخ میں لکھنے والے کیا لکھیں گے کہ اس ملک کو سب سے زیادہ نفع فلاں ادارے، فلاں جماعت سے پہنچا اور اس میں سب سے بڑا حصہ ان کا تھا، تاتاریوں کے بارے میں آج تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ان کو مسلمان کرنے میں سب سے بڑا حصہ کس کا تھا، اس لیے کہ ان مخلصین نے جنہوں نے یہ خدمت انجام دی تھی، اپنے کو اتنا چھپایا کہ تاریخ کی باریک بیں نگاہ بھی ان کو نہیں دیکھ سکی۔

اس وقت جو لڑائی لڑی جارہی ہے، اس ملک کو اسلامی معاشرت وتمدن میں ڈھالنے کی اور یہاں سے ان خرابیوں کو دور کرنے کی جو مغربی تمدن نے اور ہمارے سیاست دانوں نے داخل کر دی ہیں، اس لڑائی میں فوج کے ادنیٰ سپاہی بن جائیں، خالص اللہ کی رضا کے لیے کام کیجیے، اللہ کے یہاں آپ کا نام اس کے نورانی دفتر میں لکھا جائے گا، یہاں ہوا تو کیا اور نہ ہوا تو کیا، اس وقت لڑائی کسی مکتب خیال کی نہیں ہے، اس وقت لڑائی اسلام اور غیر اسلام کی ہے، اس طرح سمجھیے کہ ایک مسجد تعمیر ہو رہی ہے، اس میں جو بھی شریک ہو جائے سب اجر میں شریک ہوں گے، اس میں یہ کس کا کتنا حصہ ہے اور کس کا نام پہلے ہے اور کس کا نام بعد میں ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، اس جذبے کو جہاں تک ہو سکے مغلوب کرنا چاہیے، اپنے اپنے مسلک پر پورے طور پر قائم رہنا چاہیے، جسے ہم حق سمجھتے ہوں اس کو حق سمجھنا چاہیے، اس سے ہٹنے کی ضرورت نہیں ہے، سودا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سب اسلامی دعوت کا محاذ اور اسلامی زندگی پیدا کرنے کا محاذ بنائیں، اس ملک میں اسلامی زندگی پیدا ہو اور وہ آنکھوں سے دیکھی جاسکے اور یہ ملک دوسروں کے لیے نمونے بنے۔

ایثار وقربانی
تیسری بات یہ ہے کہ ہم جتنا بھی ہو سکے ایثار سے کام لیں اور باہمی نزاع سے پرہیز کریں، ہماری زندگی جتنی سادہ ہو گی، ہمار ی زندگی میں جتنی قربانی ہوگی، اتنا ہی اثر پڑے گا، اتنا ہی بہتر نتیجہ نکلے گا، سب سے خطرناک بات آپس کا نزاع ہے، ہماری آپس کے دینی مباحث کا میدان اور ہے، اس کے کہنے کا موقع اور ہے، مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات میں لکھا ہے کہ اکبر اس لیے دین سے متنفر ہوا کہ اس نے علماء کو مرغوں کی طرح لڑتے دیکھا، اگر کوئی مسئلہ چھڑتا تو ان میں آپس میں اتنی تیز بحث ہوتی اور ہر ایک دوسرے پر اپنا تفوق اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کرتا جیسا کہ پکے دنیا والے اور جاہ طلب کرتے ہیں، اکبر نے سوچا کہ یہ کیسے لوگ ہیں، یہ ہمارے وزرا، ارکانِ سلطنت اور خالص دنیا دار لوگ بھی اس سطح پر نہیں آتے، جب حضرت مجدد صاحب کو یہ معلوم ہوا کہ جہانگیر کا ارادہ ہے کہ وہ چند علما کو اپنے دربار میں مشورہ کرنے کے لیے رکھے، تو انہوں نے نواب سید فرید کو خط لکھا کہ خبردار! خبردار! بادشاہ کو رائے دو کہ مخلص اور حقانی عالم صرف ایک آدمی کو رکھے، یہ مجدد صاحب کی فراست ایمانی تھی، جو انہوں نے اس بات کو سمجھا، میں نہیں کہتا کہ ہر موقع اور مجلس میں صرف ایک ہی عالم رہے، لیکن میں کہتا ہوں کہ علماء کے آپس کے نزاعات اور بحث اور نفی کرنے سے اور ایک دوسرے کی تذلیل کرنے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے۔
خطرے کے اظہار کرنے کا بہرحال ہر شخص کو حق ہے، ایک بچہ بھی خطرے کا اظہار کرسکتا ہے کہ وہ دروازہ کھلا رہ گیا ہے، چور نہ آجائے، اس طرح میں یہ دو تین چیزیں آپ سے کہتا ہوں کہ ایک تو آپ جدید تعلیم یافتہ طبقے کو یہ تاثر نہ لینے دیں کہ کتاب وسنت اور اس کی تشریحات میں فقہ کا اور اصول فقہ کا جو ذخیرہ ہے، وہ موجود تمدن کا ساتھ نہیں دے سکتا، موجودہ مسائل حل نہیں کرسکتا، یہ خیال بڑا خطرناک ہے، یہ الحاد تک پہنچا سکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ آپ عمل سے عوام پر اور خواص پر جو حکومت میں ہیں، یہ تاثر دیں کہ آپ کی سطح بلند ہے عوام کی سطح سے، آپ کی زندگی میں سادگی نظر آئے، وہ دیکھیں کہ آپ تھوڑی چیز پر قناعت کر رہے ہیں، یہ نہیں کہ آپ چاہیں کہ آپ کی بڑی بڑی تنخواہیں ہوں اور گریڈ ہوں اور جو تنخواہیں وزرا کو مل رہی ہیں، اور ان کو جو فوائد اور مواقع حاصل ہیں، وہ ہم کو بھی حاصل ہوں، ہماری کیڈلک کار ہو، ہمارے پاس بھی کوٹھی ہو اور وہ کسی وزیر کی کوٹھی سے کم نہ ہو، بلکہ صاف صاف میں یہ کہوں گا کہ کوئی بوریہ نشین ہو تو زیادہ کام کرسکتا ہے اس لیے کہ یہ طبقہ اسی کے سامنے جھکتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ کوئی بہ تکلف بوریہ نشین بنے، میں اس کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن یہ واقعہ ہے، یہ طبقہ اسی کے سامنے آکر جھکتا ہے اور مانتا ہے جس کو سب سے زیادہ بے نیاز دیکھتا ہے، حضرت مجددؒ کے سامنے وقت کے شہنشاہ کیوں جھکے؟ اس لیے کہ یہ اللہ کا بندہ نہ کبھی کسی کی سفارش کرتا ہے اور نہ کبھی دربار میں آتا ہے، بیٹھا اللہ اللہ کرتا ہے، بیٹھے بیٹھے مشورہ دیتا ہے، ہمارے تمام مشائخ نے یہی کیا، کبھی بادشاہوں کے قریب نہیں گئے، مگر دور سے نگرانی کرتے رہے، حکومت کو اچھے آدمی دیتے رہے، دعا کرتے، ان کے حق میں مشورہ دیتے رہے، لیکن و ہ کہتے تھے کہ آگ کو دور سے تاپو، تب تو ٹھیک ہے، اگر ہاتھ ڈال دو گے تو جل جاؤ گے۔
یہ چند باتیں ہیں جو میں نے مختلف مواقع پر عرض کی ہیں، سب کا ماحصل یہی ہے کہ اس وقت بڑا امتحان ہے ہمارا، پھر عالم اسلام کا امتحان ہے، ہمیں اپنی صلاحیت کا ثبوت دینا چاہیے، کہیں ہماری صلاحیت کی کمی سے اسلام کو نقصان نہ پہنچ جائے، کوئی یہ نہ کہے اور لکھے کہ علما کی عدم صلاحیت سے یہ ہوا، میں اتنی باتیں بہت معذرت کے ساتھ آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔