راولپنڈی بہت کم جانا ہوتا ہے، تاہم جب بھی گیا ہوں کوشش یہی رہی کہ لطیف شاہ سے ملاقات ہوجائے، اب ہوتا کیا ہے؟ لطیف شاہ ملتے ہیں تو وہ لال حویلی لے جاتے ہیں جہاں ہمیشہ راشد شفیق کی مجلس گرم دیکھی۔ سیاسی کارکنوں کی گفتگو سن کر پتا چلتا ہے کہ مجلس میں شریک ہر شخص نے’’ شہاب نامہ‘‘ پڑھ رکھا ہے۔ راولپنڈی میں آپ کہیں بھی چلے جائیں جہاں بھی دو سیاسی کارکن ملتے ہیں سیاست پر گفتگو شروع ہوجاتی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر شہری ناشتہ بھی سیاست کا ہی کرتا ہے۔ راولپنڈی کی سیاسی چوپالوں میں ایک کارکن غلام حسین بٹ بھی ہے کوئی اسٹاپ واچ لے کر بیٹھ جائے اور اس کی گفتگو سنتا چلا جائے، دس پندرہ منٹ میں غلام حسین بٹ آپ کے سامنے پورے ملک کا سیاست نامہ رکھ دیتا ہے۔ اصل میں اس کے پاس سنی سنائی باتوں کا پورا ایک ذخیرہ ہے بس وہ چاہتا ہے کہ اس کی باتیں ہی سنی جائیں، ہاں جو شخص بہت اچھا سامع ہو اسے اس گفتگو سے کچھ نہ کچھ ضرور مل ہی جاتا ہے، کسی نے بتایا کہ راولپنڈی میں یہ لال حویلی کا بابا نصراللہ مشہور ہے، ہوسکتا ہے کہ ایسا ہی ہو‘ تاہم وہ غریب شخص ہے مگر ایک مخلص سیاسی کارکن ہے۔ اس کے آبائو اجداد بر صغیر کی تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان پہنچے۔ جب بات کرتا ہے تو کبھی حوصلے میں ہوتا اور کبھی نم ناک آنکھوں کے ساتھ باتیں کرتا ہے اس کی گفتگو سن کر ایک سوال ہمیشہ ذہن میں رہتا ہے کہ میرے ملک کا عام آدمی یا سفید پوش کہاں جائے، مخلص کارکن کہاں جا کر پناہ لے کیونکہ زیادہ بولنے والا کسی بھی مجلس میں مس فٹ ہے لیکن وہ سیاسی کارکن ہی کیا جو خاموش رہے۔
انہی جیسوں سے عام لوگوں کے مسائل جاننے کا موقع ملتا ہے، تکلیف میں ڈوبے انسانوں سے ملنا ہوتا ہے، کچھ کامیاب لوگوں سے ملنا ہوتا ہے، کچھ کامیابی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں ان سے گفتگو کا موقع میسر آتا ہے، کچھ خود سے بے زار افراد بھی ملتے ہیں، کچھ ایسے ہیں جنہیں کوئی پروا نہیں وہ جو ہو رہا ہے ویسے ہی چلتے رہنے دینا چاہتے ہیں۔ ہر کوئی پریشان ہے، جس کے پاس کچھ ہے وہ بھی پریشان ہے کہ اضافہ کیسے ہو اور جس کے پاس کچھ نہیں ہے وہ بھی پریشان ہے، وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن ملک میں بہت بڑی تعداد یعنی کروڑوں میں ایسے افراد ہیں جو اس کے درمیان میں پس رہے ہیں۔ ان کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اخراجات بڑھتے چلے جا رہے ہیں جب کہ آمدن میں کمی واقع ہو رہی ہے تو وہ طبقہ جو نہ تو کسی سے مانگ سکتا ہے، نہ کسی کو اپنا حال بتا سکتا ہے، نہ کسی سے شکوہ کر سکتا ہے، نہ مدد مانگنے کا حوصلہ ہے، نہ رونے، چیخنے چلانے کا راستہ بچا ہے‘ یہی تصویر غلام حسین بٹ کی ہے‘ اسے اعدادو شمار سے کیا لینا دینا۔
ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی مجموعی شرح 14.36 فی صد ہو گئی ہے۔ بجلی فی یونٹ چھبیس پیسے مہنگی ہوئی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ بہرحال سب سے تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کروڑوں لوگوں کے ملک میں حکومت چلانے والوں نے اس کا اثر نہیں لیا، نہ تو انہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے اثر ہوا ہے نہ انہیں عوام کی حالت زار پر رحم آتا ہے۔ امراء کا طبقہ یا حکمران طبقہ یا فیصلہ سازی میں شریک اہم شخصیات کو ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی و بے روزگاری نے چونکہ متاثر نہیں کیا اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، غریب کا بچہ اسکول جائے نہ جائے، بیمار ہونے پر اس کا علاج ہو نہ ہو کسی کو پروا نہیں۔ اگر حکمران طبقے کو فکر ہوتی تو آج ملک میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر نہ ہوتے، حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ باسٹھ لاکھ سے زائد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں یا اسکولوں سے باہر ہیں۔ یہ اسکول نہ جانے والے بچوں سے متعلق ہے‘ وہ کتنے ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری نہیں ملتی ایسے بچوں اور ایسے طلبہ طالبات کے لیے کبھی سیاست دانوں نے آئینی پیکیج کی طرح دوڑ بھاگ نہیں کی‘ کون نہیں جانتا ہے کہ اس وقت پانچ سے نو سال تک کے ایک کروڑ سات لاکھ چوہتر ہزار آٹھ سو نوے بچے، بچیاں اسکول سے باہر ہیں۔ دس سے بارہ سال تک کی عمر کے انچاس لاکھ سے زائد بچے بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں جن میں 21 لاکھ 6 ہزار 672 بچے اور 28 لاکھ 28 ہزار 812 بچیاں مڈل تعلیم سے محروم ہیں کیا یہ اعدادو شمار ہماری تمام سیاسی جماعتوں اور قیادت کو کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کرتے۔ دس منٹ غلام حسین بٹ کے پاس بیٹھ جائیں وہ آپ کو سب کچھ بتا دے گا کہ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار کیوں ہیں اور تعلیم جیسی بنیادی اور اہم ترین چیز سے کروڑوں بچے محروم ہوں اور ملک میں سیاسی جماعتیں ہر وقت کسی نہ کسی آئینی ترمیم میں مصروف ہوں، ہر وقت کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت سڑکوں پر ہو، احتجاج اور مظاہرے ہوں، یہ صرف تعلیم کی بات ہے اگر صحت اور غذا کی بات ہو تو اعدادو شمار اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ اور پریشان کن ہوں لیکن کوئی پارلیمنٹ کوئی ادارہ اس پر ایکشن نہیں لیتا حیران کن ہے کیونکہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور کیوں ہم اپنے مستقبل کو تعلیم سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟