ترمیم یا آئین کے حروف تہجی کا سوپ

285

10 اپریل 1973 کو قومی اسمبلی سے منظور اور 14 اگست 1973 کو ملک بھر میں نافذ ہونے والے پاکستان کے آئین کے مسودے پر جیسے ہی اس وقت کے صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو نے دستخط کیے، 31 توپوں کی سلامی کے ساتھ ’’ہفتہ جشن آئین‘‘ کی تقریبات کا آغاز کردیا گیا۔ اس موقع پر بانی پیپلز پارٹی، صدر مملکت نے مختصر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’’قوم کو آئین مل گیا ہے، یہ آئین عوام کا ہے، عوام کی ملکیت ہے وہ اپنے آئین کی خود حفاظت کریں گے‘‘۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو اس وقت بھی معلوم نہیں تھا کہ انہیں کیا مل گیا ہے اور کس چیز کی حفاظت کرنی ہے اور آج بھی اس معاملے میں وہ بے خبر ہی ہیں۔ عوام دن بھر کی مارا ماری کے بعد خالی جیب تھکے اور چڑ چڑے گھر آتے ہیں تو انہیں پتا نہیں ہوتا کہ آئین نے ان کی زندگی میں کون سی گنگا بہادی ہے، انہیں کون کون سے ظلم اور زیادتی سے بچایا ہے، ان کی زندگی میں کہاں کہاں گھی کے چراغ روشن کردیے ہیں کہ وہ اس کی حفاظت کریں۔

ایک بار جوش ملیح آبادی نے اپنی محبوبہ کو یہ رباعی سنائی:
اللہ رے یہ حرف انکشافی آنکھیں
جھکتی، اٹھتی، رواں، ذخافی آنکھیں
احساس پر گر پڑی، کڑک کے بجلی
کافر نے اٹھائی جو غلافی آنکھیں

کافر قرار دینے پر محبوبہ پہلے تو سناٹے میں آگئی، مصرع ذرا سمجھ میں آیا تو بولی ’’یہ آپ میری تعریف کررہے ہیں یا لفظوں سے سنگسار کررہے ہیں‘‘۔ آئین کی شقوں کی تفصیلات بھی خبروں اور ٹاک شوز میں عوام کی سمع خراشی کرتی ہیں۔ سمجھ میں انہیںککھ نہیں آتا اور نہ ہی ان کی زندگی میں آئین کی شقوں کا کوئی کردار ہے۔

ایک دیہاتی ٹریفک پولیس میں بھرتی ہوا۔ مہینے کے بعد تنخواہ ملی تو بولا ’’عجب کام ہے آنے جانے والوں کو سیٹیاں مارنے کے بھی پیسے ملتے ہیں‘‘۔ قومی وصوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کا رکن بننا اس سے بھی زیادہ حیران کن کام ہے۔ کرنا کچھ نہیں ہوتا بس ٹھنڈے ٹھار ایوانوں میں بیٹھ کر بک بک کرنا، ایک دوسرے کو برابھلا کہنا کوسنے دینا، راہ کھوٹی کرنا اور بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات لینا ہوتا ہے۔ معاملہ زیادہ ہی اوکھا ہو جائے تو آئینی ترامیم سے آلات حرب وضرب کا کام لیا جاتا ہے۔ حکومت اگر نیاگرا آبشار بھی اٹھا کر لے آئے تو اپوزیشن کا کام اسے نالہ ثابت کرنا ہوتا ہے اور اپوزیشن اگر شیکسپیئر کی زبان میں بھی بات کرے گی حکومت اسے ایسا بم قراردے گی جو چلتا نہیں۔ اسی کو جمہوریت کا حسن کہتے ہیں۔ ایک رکن اسمبلی نے کہا تھا ’’ہم کئی گھنٹے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنستے رہے پھر اجلاس ملتوی ہوگیا‘‘۔

ایک صاحب کتب فروش کی دکان پر پہنچے اور غصے سے بولے ’’آمریت نے اس ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے۔ مجھے آمروں کے خلاف کوئی کتاب چا ہیے‘‘۔ کتب فروش نے آئین پاکستان کا ایک نسخہ اسے تھما دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور گاہک آیا اور بولا ’’جمہوریت نے ہمارا ستیا ناس کردیا ہے۔ مجھے جمہوریت کے خلاف کوئی کتاب چا ہیے‘‘۔ کتب فروش نے آئین پاکستان کا ایک اور نسخہ نکالا اور گاہک کی خدمت میں پیش کردیا۔ آئین پاکستان نہ آمریت کی راہ میں رکاوٹ بن سکا اور نہ جمہوریت کی حفاظت کے لیے کوئی ویکسین تیار کرسکا۔ آمر اسے چند صفحات کی کتاب قرار دے کر ایک طرف پھینک دیتے ہیں اور جمہوری حکمران ترامیم سے اس کا حلیہ بگاڑنے کی مشق کرتے رہتے ہیں۔ آئینی ترامیم کرتے ہوئے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ موجودہ ترمیم سے ’’بواسیر اور دیگر امراض چشم‘‘ کا علاج کیا جائے گا لیکن بواسیر کا کچھ بگڑتا ہے اور نہ امراض چشم کو شفا ہوتی ہے البتہ حکمرانوں کی مدت عیاشی طویل ہوجاتی ہے۔

1973 میں آئین کی توثیق کے بعد مرکزی وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا ’’نیا آئین پائیدار ثابت ہوگا لیکن ضرورت پڑنے پر اس میں ترامیم ہو سکتی ہیں‘‘ اور یہ ضرورت اس آئین کے خالق کو سات مرتبہ، وزیراعظم نواز شریف کو اپنے تین ادوار میں آٹھ مرتبہ، وزیراعظم محمد خان جو نیجوکو تین مرتبہ، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو تین مرتبہ پیش آئی۔ جب کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور عمران خان کے دور میں دودو اور ظفراللہ جمالی کے دور میں ایک آئینی ترمیم ہوئی۔ یوں اب تک اس آئین میں 25 ترامیم ہو چکی ہیں۔ صرف ایک سال بعد ہی اس آئین میں پہلی ترمیم کی ضرورت آن پڑی اور صرف چار سال بعد ہی 5 جولائی 1977 کو اس آئین کو روندتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ مقننہ کی چھٹی کرادی گئی۔ کمال یہ ہوا کہ وہ عدلیہ جسے آئین کی حفاظت کرنا تھا اس نے آئین روندنے والے سے بہناپے کا رشتہ قائم کرلیا اور آئین کو حروف تہجی کا سوپ بناکر ایک ہی سانس میں پی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ عدالتیں محض نفاذ قانون کا ذریعہ ہوتی ہیں ان کی اپنی کوئی خواہش نہیں ہوتی لیکن ہماری عدلیہ اس اصول کو کچھ زیادہ منہ نہیں لگاتی۔ جسٹس محمد منیر سے لے کر جنہوں نے غلام محمد یا سکندر مرزا یا ایوب خان میں سے کسی کے بھی ماورائے آئین وقانون اقدامات کی ہلکی سی مزاحمت نہ کی تھی جنرل مشرف کی حکومت آتے آتے ہماری عدلیہ اپنی خواہشوں کی اس قدر اسیر ہوگئی کہ 12 مئی 2000 کو 12 اکتوبر 1999 کے جنرل مشرف کے غاصبانہ اقدام کو نہ صرف حق بجانب قرار دیا بلکہ ستم یہ ڈھایا حکومت کی درخواست کے بغیر ازخود اسے آئین میں ترمیم کا حق بھی دے دیا۔

حالیہ برسوں میں یہ خرابی زیادہ شدت سے درآئی ہے۔ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں بینچ کی تشکیل دیکھ کر ہی پیش گوئی کردی جاتی تھی کہ محترم جسٹس صاحبان کی خواہشات فیصلے کو کیا روپ دیں گی۔ رواں برس 12 جولائی کو بھی ایسا ہی ایک فیصلہ سامنے آیا جس میں عدالت طویل مراقبے میں، کتاب آئین کی طرف پشت کیے، آئینی نکتوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی خواہش کو فیصلہ قرار دے رہی ہے۔ بے شک پی ٹی آئی کے امیدواروں کے پاس پارٹی ٹکٹ نہیں تھا، بے شک ان کے پاس انتخابی نشان بھی نہیں تھا، انہوں نے اسمبلیوں میں آزاد ارکان کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا تھا، پی ٹی آئی سے الگ ہوکر وہ سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے تھے، وہ کوئی عرضداشت لے کر بھی عدالت کے دروازے پر نہیں پہنچے، وہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو دینے کے آرزو مند تھے لیکن عدالت عظمیٰ کے اکثریتی جج صاحبان نے انحطاط کی داستان کا ایک اور دل شکن باب رقم کردیا۔

عدالت عظمیٰ کے اکثریتی جج صاحبان کی خواہشات کی اس لوٹ سیل نے آنے والے دنوں میں کسی انہونی سے بچنے کے لیے حکومت، پارلیمنٹ، اسٹیبلشمنٹ سب کو چو کنا کردیا ہے۔ حکومت چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے اس صورتحال سے نمٹنا چا ہتی ہے۔ آئین اور قانون کسی کی ترجیح نہیں ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ، الیکشن کمیشن، عدلیہ سب آئین وقانون سے ماورا سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ اتوار کی شب قومی اسمبلی میں یہ آئینی ترمیمی پیکیج پیش نہیں کیا جاسکا۔ جوڑ توڑ زوروں پر ہے۔ سب مولانا فضل الرحمن کے عشق میں مبتلا ہیں۔ پیر 16ستمبر کو آئینی ترمیم اسمبلی میں پیش ہونے کا امکان تھا۔ ہمارے ایک دوست نے ہمیں اس معاملے میں فکر مند دیکھا تو بولا ’’چھوڑو یار تم تو اس طرح فکر مند ہو جیسے یہاں سچ مچ کی حکومتیں ہوتی ہیں، سچ مچ کا انصاف ہوتا ہے، سچ مچ انصاف اور قانون کے تقاضے نبھائے جاتے ہیں اور سچ مچ بلا خوف ورعایت اور بلارغبت وعناد انصاف کیا جاتا ہے۔ چھبیسویں ترمیم آئے یا ستائسویں سب کو اندر سے بکھرنے کا روگ لگا ہوا ہے‘‘۔