کراچی میں ایک اور بے گناہ نوجوان ڈاکوؤں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ 13 ستمبر کو سر سید یونیورسٹی کے قریب 53 سالہ عبدالحلیم عمیری کو مسلح ڈاکوؤں نے دوران ڈکیتی مزاحمت پر گولی مار کر شدید زخمی کر دیا۔ ان کے پیٹ میں گولی ماری گئی جو جسم کو پار کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔ انہیں فوری طور پر پٹیل اسپتال گلشن اقبال کے جایا گیا جہاں وینٹی لیٹر فارغ نہ ہونے کے باعث سول اسپتال ٹراما سینٹر میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کیا گیا جہاں چھے روز تک موت وزندگی کی کشمکش کے بعد وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ عبدالحلیم عمیری اسلامی جمعیت طلبہ کے سابق رکن اور ذمے دار اور جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھے۔ اس سے قبل بھی ان کا ایک نہایت ہی خطرناک ایکسیڈنٹ بھی ہوا تھا اور موت کو شکست دینے کے بعد انہیں ایک نئی زندگی ملی تھی۔ ان کی نماز جنازہ گول گراؤنڈ ماڈل کالونی میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر، سیکرٹری توفیق الدین صدیقی کے علاؤہ بڑی تعداد میں جماعت اسلامی کے ذمہ داران، کارکنان نے شرکت کی بعدازاں مرحوم کو ماڈل کالونی قبرستان میں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
عبدالحلیم عمیری تحریک اسلامی کا ایک بہادر اور جرأت مند کارکن تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم کی ذمے داری سے لیکر اب تک وہ اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف عمل تھا لیکن کراچی میں روز بروز بڑھتی ہوئی بدامنی اور اسٹریٹ کرائمز کی بھینٹ ایک اور نوجوان چڑھ گیا ایک اور گود اجڑ گئی ایک اور سہاگن بیوہ ہوگئی، معصوم بچے یتیم ہوگئے۔ بہنوں کا سہارا اجڑ گیا کون ہے جو اس کا ذمہ دار ہے۔ کراچی جو کہ ڈاکوؤں کی راج دھانی بن چکا ہے۔ کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ، وزراء سب اچھا ہے کا راگ گا رہے ہیں۔ سی پی ایل سی کی گزشتہ آٹھ ماہ کی رپورٹ حکومت کی کارکردگی اور ان کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ماہ اگست تک 45 ہزار سے زائد جرائم کی وارداتیں کراچی شہر میں ہوئی ہیں۔ بارہ سو سے زائد گاڑیاں چھینی گئی، 12 ہزار موبائل چھین لیے گئے۔ اغوابرائے تاوان کی ایک درجن سے زائد وارداتیں ہوئیں۔ پولیس اور رینجرز کی موجودگی میں ایک بین الاقوامی شہر میں اس طرح کی لاقانونیت ایک المیے سے کم نہیں ہے۔ پولیس اور رینجرز کو بہترین اسلحہ گاڑیوں ودیگر سازو سامان سے آراستہ کیا گیا لیکن اس کے باوجود عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
عبدالحلیم عمیری جیسے نوجوان اس ملک وقوم کا مستقبل تھے۔ کیسے کیسے خواب اس نوجوان نے دیکھے ہوں گے لیکن ایک گولی نے ہی سارے خواب چکنا چور کردیے ہیں۔ اس بہیمانہ قتل کی ذمے دار سندھ حکومت نے جس نے ان چوروں ڈکیتوں کو کھلی چھٹی دی ہوئی ہے جو دیدہ دلیری کے ساتھ اپنی لوٹ مار میں مصروف ہیں اور مزاحمت کرنے والوں کو وہ موقع پر ہی گولی مار کر ہلاک کرنے میں چوکتے نہیں ہیں۔ روزانہ موبائل چھیننے کی وارداتوں میں مزاحمت کے دوران نوجوانوں کی ہلاکت معمول بنی ہوئی ہے۔ کسی کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔ پولیس روڈوں اور سڑکوں پر چیکنگ کی نام پر عام شہریوں اور نوجوانوں کو بلاجواز تنگ کرتی ہے اور جرائم پیشہ عناصر کو آزاد چھوڑا ہوا ہے۔ عبدالحلیم عمیری کی ڈاکوؤں کے ہاتھوں شہادت پر آج پورا شہر افسردہ ہے ان کے دوست ساتھی واہل خانہ غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ڈاکووں نے ایک شخص کو گولی مار کر قتل نہیں کیا بلکہ پورے خاندان کو زندہ درگور کردیا ہے۔ حکومت اور پولیس حکام بیان بازیوں کے ذریعے خانہ پوری سے کام لیں گے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا۔ عبدالحلیم عمیری کے قتل کے ذمے دار جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت بھی ہے جو کہ کچے کے ڈاکوؤں کے ساتھ ساتھ پکے کے ڈاکوؤں کو بھی پال رہی ہے اور انہیں عوام کے قتل عام کی کھلی چھٹی دی ہوئی ہے۔