غلامی میں انتخابات

263

مقبوضہ کشمیر قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات 18 ستمبر 2024، سے ہو رہے ہیں۔ نریندر مودی اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ اپنا نیا کھیل کھیلنے کے لیے میدان میں کھیل رہی ہے بھارتی چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے کہا ہے کہ یہ انتخابات تین مراحل میں ہوں گے: 18 ستمبر، 25 ستمبر اور یکم اکتوبر‘ انتخابی نتائج کا اعلان اکتوبر کے پہلے ہفتے میں ہوگا مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے 90 ارکان کو منتخب کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے 90 لاکھ ووٹرز بروئے کار آئیں گے، بشرطیکہ بھارتی حکومت کے زیر استبداد اور زیر عتاب کشمیریوں کی اکثریت ووٹ ڈالنے کے لیے راضی ہو جائے۔ کشمیریوں کی اکثریت مگر بوجوہ بھارت سے متنفر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پانچ لاکھ بھارتی افواج متعین اور قابض ہیں۔ پچھلے دو برسوں کے دوران مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے ہاتھوں 70 سے زائد بھارتی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیری نوجوانوں کی شہادتیں ہورہی ہیں ایسے میں مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات؟ بھارتی حکومت مصر ہے کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات ہر صورت ہوں گے یوں بھارت لہو لہو کشمیر میں جمہوریت کا ایک نیا ڈراما رچانے کے درپے ہے؟ یہ اسمبلی انتخابات ٹھیک ایک عشرے بعد کروائے جا رہے ہیں۔ اور وہ بھی ایسی صورت میں جب کہ بھارتی آئین میں مندرج مقبوضہ کشمیر بارے خصوصی شِق (370) کو ظالمانہ اور نہایت غیر جمہوری انداز میں کھرچے ہوئے پانچ سال گزر رہے ہیں۔

بھارتی حکومت اور انڈین عدالت عظمیٰ کی ملی بھگت سے یہ انتخابات یوں ہو رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی ساری سینئر اور آزادی پسند قیادت (آل پارٹیز حریت کانفرنس) بھارتی جیلوں میں قید کی جا چکی ہے۔ جو کٹھ پتلی البتہ باہر رہ گئے ہیں، ان میں سے بھی اکثریت اِن انتخابات میں حصہ لینے سے گریزاں ہے۔ نریندر مودی جعلی تفاخر سے کہتے رہتے ہیں کہ انہوں نے آرٹیکل 370 ختم کرکے ظلم کی ابتداء کی ہے اور انتخابات کے بعد انتہاء کریں گے زمینی حقائق ہیں کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اگرچہ استبدادی ہتھکنڈوں سے مقبوضہ کشمیر جل رہا ہے اب بمشکل ہی کشمیری میڈیا میں کشمیر بارے اصل تصویر ابھرتی ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت کے مین اسٹریم میڈیا میں کہیں نہ کہیں سے مقبوضہ کشمیر بارے داستانیں سامنے آ ہی جاتی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے 9 دن قبل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے ممتاز سیاستدان، شیخ رشید انجینئر، کو عبوری ضمانت پر رہا کیا گیا ان کی ضمانت 2 اکتوبر تک ہوگی۔ رشید انجینئر بھارتی لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اپنی جماعت (عوامی اتحاد پارٹی) کے سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے جیل میں قید کی حالت میں مقبوضہ کشمیر کی معروف سیاستدان اور سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو شکست دی تھی۔ وہ 2019 سے دہلی کی بدنامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں، الزام مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے کا ہے۔ اِسی بیہودہ اور بے بنیاد الزام کے تحت مشہور کشمیری لیڈر یاسین ملک کو بھی بھارتی عدالت دو برس قبل عمر قید کی سزا سنا چکی ہے۔ اب اِنہی رکن لوک سبھا رشید انجینئر کو دہلی کی پٹیالہ ہائوس کورٹ نے 10 ستمبر 2024 کو عبوری ضمانت دی ہے، یہ کہہ کر کہ وہ (مقبوضہ) کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں اپنی پارٹی امیدواروں کے لیے کمپین کر سکیں آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی غاصب حکومت نے عجب تماشے لگا رکھے ہیں ابھی چار ماہ قبل بھارت میں لوک سبھا کے عام انتخابات ہوئے تھے۔ اِنہی انتخابات کے نتائج کے تحت مودی جی تیسری بار بھارتی وزیراعظم بنے ہیں۔

اِن انتخابات میں بھی بھارتی سیاستدان ووٹ بٹورنے کی سعی کرتے دکھائی دیے۔ نریندر مودی بھی بدرجہ اتم ملوث تھے اور اب مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں بھی پاکستان کی مخالفت کے نام پر ووٹ لینے کی جنگ جاری ہے۔ مثال کے طور پر 8 ستمبر کو بھارتی وزیر دفاع اور معروف بی جے پی لیڈر راجناتھ سنگھ نے جموں کا دورہ کیا انہوں نے پاکستان کے خلاف جس دریدہ دہنی سے کام لیا ہے، کم سے کم الفاظ میں ہم اِس کی مذمت ہی کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف ہفوات بکنے والے مودی اور راجناتھ سنگھ ایسے بھارتی سیاستدان خوب جانتے ہیں کہ یہ پاکستان ہے جو مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات کی جعلسازیوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے گا۔ اور یوں بھارتی عزائم ناکام اور بے نقاب ہو جائیں گے۔ 6 ستمبر 2024 کو بھارتی وزیر داخلہ، امیت شاہ، نے کشمیر اسمبلی انتخابات میں کشمیریوں کے دل لبھانے کے لیے جو 25 نکاتی وعدہ نما منشور جاری کیا ہے، اِس میں بھی پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسندوں کے خلاف زبان درازی کی گئی ہے۔ کیا ایسی صورت میں مقبوضہ کشمیر کے مجبور باسی 18 ستمبر کو شروع ہونے والے تھری فیز کشمیر اسمبلی کے انتخابات میں خوشدلی سے حصہ لیں گے؟ اِس سوال کا جواب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے دیا ہے کہ کچھ ایسے اشارے بھی سامنے آرہے ہیں کہ (مقبوضہ کشمیر میں) بھارتی حکومت کی پالیسیوں کو مسترد کرنے اور اظہارِ عدم اطمینان کے لیے بہت سے کشمیری اِن انتخابات میں اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ماضی سے مختلف ہوگا کہ جب انتخابات کو دھوکا قرار دے کر کشمیری عوام نے ان کا بائیکاٹ کیا۔ چونکہ مطالبات رکھنے کے دیگر تمام راستے بند کیے جاچکے ہیں، ایسے میں بھارتی حکومت کے خلاف ووٹ، کشمیریوں کی آواز بن سکتا ہے۔ بہت سی میڈیا رپورٹس میں کشمیری عوام کے مقف کو شامل کیا گیا ہے جن سے یہ تاثر ملا کہ ووٹنگ سے الحاق اور بھارتی حکومت کی پالیسیوں کی توثیق ہرگز نہیں ہوگی بلکہ یہ ان کے لیے مزاحمت اور مخالفت رجسٹر کرنے کا ایک موقع ہوگا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بھارت سمیت دنیا بھر کو جان لینا چاہیے کہ کشمیری کسی انتخابی جھانسے میں نہیں آئیں گے اور نہ ہی بآسانی کسی کو اپنی آزادی کا سودا کرنے دیں گے۔