قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ

109

یہ باتیں تو یوں ہی ہوتی چلی آئی ہیں۔ اور ہم عذاب میں مْبتلا ہونے والے نہیں ہیں‘‘۔ آخرکار انہوں نے اْسے جھٹلا دیا اور ہم نے ان کو ہلاک کر دیا یقینا اس میں ایک نشانی ہے، مگر ان میں سے اکثر لوگ ماننے والے نہیں ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تیرا رب زبردست بھی ہے اور رحیم بھی۔ ثمود نے رسولوں کو جھٹلایا۔ یاد کرو جبکہ ان کے بھائی صالحؑ نے ان سے کہا ’’کیا تم ڈرتے نہیں؟۔ میں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں۔ لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (سورۃ الشعراء:137تا145)

سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ کے پاس کچھ صحابہ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے دلوں میں بعض اوقات اتنے برے خیالات آتے ہیں جنہیں ہم بیان نہیں کر سکتے۔ آپؐ نے فرمایا کیا واقعی اس طرح کے خیالات آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اس پر آپؐ نے فرمایا یہ تمہارے ایمان خالص کی دلیل ہے۔ (صحیح مسلم) تشریح: مطلب یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں برے خیالات کا آنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارے پاس ایمان کا خزانہ ہے شیطان اس طرح وسوسہ اندازی کرکے اس خزانے کو لوٹ لینا چاہتا ہے تو یہ پریشان ہوئے کی کوئی بات نہیں ہے تمہیں اپنا کام کرنا ہے اور شیطان کو اپنا کام۔a