ڈونلڈٹرمپ اور کملا ہیرس کے درمیان مباحثہ

131

امریکا میں انتخابات نومبر میں منعقد ہورہے ہیں جن پر دنیا کی نظر ہے۔ ہم نے امریکا کے انتخابات، اہم شخصیات ،ایشوز ، وہاں کے نظام اور اس کے عالمی اثرات پر روشنی ڈالنے کے لیے ایک خصوصی سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں ہر ہفتے امریکا میں مقیم معروف تجزیہ نگار مسعود ابدالی کے مضامین ”سنڈے میگزین“ میں شایع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین کے ذریعے قارئین کو عالمی تناظر میں امریکی سیاست کو سمجھنے اور اہم معاملات کی تفہیم حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔آپ کے تبصروں اور آراء کا انتظار رہے گا۔

افغانستان سے پسپائی پر دلچسپ نوک جھوک ،تارکین وطن کا حقارت انگیز ذکر،کملا کم عقل ہیں، دو جملے ترتیب نہیں دے سکتیں،ڈونلڈٹرمپ
خواتین کی بے حرمتی اور ٹیکس چوری جیسے 34 الزامات پر مجرم قرار پانے والا ہمیں لیکچر دے رہا ہے،کملا کا جواب

منگل 10 ستمبر کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان براہِ راست مباحثہ ہوا۔ اس کا اہتمامABC ٹیلی ویژن نے کیا تھا۔ جائزے کے مطابق ایک کروڑ 20 لاکھ امریکیوں نے 90 منٹ کا یہ مباحثہ براہِ راست دیکھا۔ سوا دوماہ پہلے 27 جون کو ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر بائیڈن کے مابین مباحثے کو چار کروڑ لوگوں نے ملاحظہ کیا (حوالہ: ChatGPT)۔ ناظرین کی کم تعداد معنی خیز اور امریکی انتخابات میں عوام کی عدم دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے۔ پہلے مباحثے میں صدر بائیڈن کی مایوس کن کارکردگی نے انھیں دوڑ سے دست برداری پر مجبور کیا۔

یہ کملا ہیرس کا پہلا صدارتی مباحثہ تھا، جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء کی مہم کے دوران ہلیری کلنٹن، اور 2020ء میں صدر بائیڈن سے کئی بار بحث کرچکے ہیں۔ ہیرس صاحبہ نے مباحثے کے لیے بھرپور تیاری کی اور وہ ماہرین کی نگرانی میں دو ہفتے سے مشق کررہی تھیں۔ یہ درست کہ کملا ہیرس کو صدارتی مباحثے کا تجربہ نہیں، لیکن وہ ایک منجھی ہوئی وکیل اور فنِ گفتگو و تقریر کی ماہر ہیں۔ دوسری طرف اس میدان میں جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی صلاحیت قابلِ رشک نہیں۔ اُن کا ذخیرۂ الفاظ بے حد مختصر ہے، جس کی بنا پر تقریر کے دوران وہ ایک ہی لفظ کو بار باردہراتے ہیں۔

 

گفتگو کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے اپنی حریف پر کمیونسٹ ہونے کی پھبتی کسی اور بولے ’’کامریڈ ہیرس مارکسسٹ ہیں، ان کے والد مارکسزم کے پروفیسر تھے‘‘۔ جناب ٹرمپ کے خیال میں کملا جی کم عقل ہیں، یہ دوجملے ترتیب نہیں دے سکتیں، اور اگر محترمہ صدر منتخب ہوگئیں تو امریکا کے لیے یہ ایک المیہ ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس ملک کے دو بڑے مسائل ہیں: ایک شکستہ سرحد، جس کی وجہ سے ملک میں جرائم پیشہ لوگوں کا سیلاب آیا ہوا ہے، اور دوسرا غیر شفاف انتخابی نظام۔ لاکھوں غیر ملکی تارکینِ وطن کو ووٹر بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بائیڈن انتظامیہ کی مہمل امیگریشن پالیسیوں کی وجہ سے ہر ملک کے مجرم پیشہ عناصر، دہشت گرد اور عصمت دری کے عادی امریکا آرہے ہیں۔ دنیا میں جرائم کم ہورہے ہیں لیکن امریکا میں پُرتشدد جرائم کی شرح آسمان پر ہے، اس لیے کہ سب وحشی یہاں آگئے ہیں۔ اس پر میزبان ڈیوڈ موئر نے توجہ دلائی کہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ چار سالوں کے دوران امریکا میں سنگین جرائم میں کمی واقع ہوئی ہے، جسے مسترد کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا: فیک اعداد و شمار جھوٹی حکومت جاری کررہی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ امریکا آنے والے غیر ملکی، مقامی شہریوں کے پالتو کتے اور بلیاں کھا رہے ہیں، جس پر میزبان نے پھر مداخلت کی اورکہا کہ سوشل میڈیا پر آنے والی اس خبر کو شہری انتظامیہ نے من گھڑت قرار دیا ہے۔

 

 

اس کا جواب دیتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا ’’واہ واہ ذرا دیکھو یہ کون کہہ رہا ہے! وہ شخص جس پر خواتین کی بے حرمتی، ٹیکس چوری، قومی راز افشا کرنے سمیت 34 سنگیین جرائم ثابت ہوچکے ہیں اور موصوف کو نومبر میں سزا سنائی جائے گی‘‘۔ جواب میں ٹرمپ بولے ’’بائیڈن انتظامیہ نے عدالت اور محکمہ انصاف میں اپنے حامی بٹھادیے ہیں جو میرے خلاف انتقامی کارروائی کررہے ہیں۔ ان کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔‘‘

 

90 منٹ پر محیط اس مباحثے کے تمام نکات کو اس کالم میں سمونا ممکن نہیں، تاہم اس دوران غزہ نسل کُشی اور افغانستان کے معاملے پر تفصیلی بحث ہوئی اور ان نکات پر دونوں رہنمائوں نے بہت ہی بے شرمی سے جھوٹ بولے۔

افغانستان سے پسپائی کا ذکر کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ بائیڈن حکومت نے وہاں سے بھاگنے میں جس بدحواسی بلکہ نامردی کا مظاہرہ کیا اس نے اقوام عالم میں امریکا کا رعب و دبدبہ ختم کردیا۔ امریکا کے 13 جوان مارے گئے اور 85 ارب ڈالر کا جدید ترین اسلحہ افغانوں نے ہتھیا لیا۔ انہوں نے حسبِ عادت شیخی بگھاری کہ ’’میں نے عبدل (قطر امن مذاکرات میں افغان وفد کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر) کو فون کیا اور کہا: خبردار جو اب ہمارے کسی جوان پر حملہ کیا۔ میں نے اُس کے گھر کی تصویر اُس کو بھیجی، یہ ایک پیغام تھا کہ تمہارا گھر بھی ہمارے نشانے پر ہے‘‘۔

اس کا جواب دیتے ہوئے کملا بولیں ’’صدر بش، صدر اوباما اور صدر ٹرمپ تینوں نے افغانستان سے فوج بلانے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی صدر بائیڈن کو نصیب ہوئی‘‘۔ امریکی نائب صدر نے انکشاف کیا کہ افغان جنگ کا خرچہ 300 ملین یا 30 کروڑ ڈالر روزانہ تھا۔ انھوں نے جوابی الزام لگایا کہ ٹرمپ دور میں افغان معاہدہ دب کر کیا گیا اور افغان حکومت کے بجائے دہشت گردوں سے مذاکرات ہوئے۔

 

حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں نے جھوٹ کا سہارا لیا۔ افغان حکومت کے بجائے ملائوں سے مذاکرات کا اصولی فیصلہ اوباما حکومت کے آخری دنوں میں ہوچکا تھا۔ ملائوں کو منانے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کئی بار غیر اعلانیہ دورے پر پاکستان آئے، لیکن ملا اُن کی بات نہ مانے، اور آخرِکار واشنگٹن براہِ راست مذاکرات پر مجبور ہوا۔ اسی طرح ٹرمپ صاحب کی جانب سے عبدل کو ڈرانے کا دعویٰ نری شیخی اور لن ترانی ہے۔ فون گفتگو کی حقیقت یہ ہے کہ جب قطر امن معاہدے پر اصولی اتفاق ہوگیا تو سوال اٹھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کیسے ہو؟ امریکا کے مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے جب یہ معاملہ افغان وفد کے سامنے رکھا تو ’عبدل‘ نے کہا کہ ہم امریکی سپاہیوں کو واپسی کے لیے محفوظ راستہ دینے کو تیار ہیں لیکن ہتھیار واپس نہیں لے جانے دیں گے۔ خاصے بحث مباحثے کے بعد یہ طے پایا کہ ہر سپاہی گولیوں کے بغیر اپنا ذاتی اسلحہ ساتھ لے جاسکتا ہے۔ محفوظ راستے کی یہی ضمانت حاصل کرنے کے لیے صدر ٹرمپ نے عبدل کو فون کیا تھا۔ گھر کی تصویر دکھانے والی بات اس اعتبار سے لغو ہے کہ امریکی حملے کے آغاز پر ہی عبدل کراچی میں گرفتار ہوگئے تھے، اور زلمے خلیل زاد کی درخواست پر انھیں رہا کرکے کراچی سے قطر بھیجا گیا۔ ان کا کابل میں کوئی گھر تھا ہی نہیں جس کی ٹرمپ صاحب تصویر دکھاتے۔ یہ معاہدہ 1400 سال پہلے ہونے والے بنو نضیر معاہدے کی نقل ہے جب اس شرط پر ان لوگوں کی جان بخشی کی گئی تھی کہ وہ اسلحہ چھوڑ کر مدینہ چھوڑ جائیں۔

 

غزہ نسل کُشی کا معاملہ اٹھانے کے لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے صبح کو مباحثے کے مقام نیشنل کانسٹی ٹیوشن سینٹر فلاڈیلفیا جانے والی مرکزی سڑک پر دھرنا دیا۔ پولیس سے مذاکرات کے بعد یہ نوجوان اس شرط پر وہاں سے اٹھے کہ انھیں ہال کے مرکزی دروازے پر مظاہرے کی اجازت ہوگی۔ روایتی کفیہ اوڑھے نوجوان غزہ نسل کُشی کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ وہاں ایک تقابلی کتبہ لوگوں کی نگاہ کا مرکز بنا رہا جس میں بتایا گیا تھا کہ غزہ نسل کُشی، ماحول دشمنی اور تارکینِ وطن سے تضحیک آمیز برتائو کے حوالے سے ٹرمپ اور کملا بالکل ایک ہیں اور ان دونوں نے سیاست و ایوانِ حکومت کو بڑی کارپویشنوں کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔

 

غزہ خونریزی کے سوال پر اسرائیل نوازی کا بھرم رکھتے ہوئے کملا ہیرس نے کہا کہ موجودہ تنازعے کا آغاز 7 اکتوبر کو ہوا جب دہشت گردوں نے 1200 بے گناہ اسرائیلیوں کو ہلاک، خواتین کو بے آبرو اور سیکڑوں معصوم لوگوں کو یرغمال بنایا۔ اس تناظر میں اسرائیل کو اپنے دفاع اور جوابی کارروائی کا حق حاصل ہے۔ لیکن دفاع اور جواب دیتے ہوئے اخلاقی اقدار کی پاس داری ضروری ہے۔ غزہ میں 40 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے اور سارا علاقہ کھنڈر بن چکا ہے۔ فوری جنگ بندی اور غزہ کی تعمیرنو ہماری ترجیح ہے۔ محفوظ اسرائیل کے ساتھ پُرامن، بااختیار، مستحکم اور خوشحال فلسطینی ریاست ضروری ہے۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے نائب صدر صاحبہ بولیں ’’پھر سن لیں! اسرائیل کے تحفظ کے لیے میرا عزم آہنی ہے۔‘‘

 

اس کا جواب دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ’’ہیرس کو اسرائیل سے نفرت ہے۔ اگر یہ صدر بن گئیں تو اسرائیل ختم ہوجائے گا۔ تاہم یہ عربوں کی بھی دوست و ہمدرد نہیں۔‘‘

صدارتی مباحثے کے بعد ناظرین کا جو جائزہ CNNنے شایع کیا اُس کے مطابق 63 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ کملا ہیرس بحث کے دوران چھائی رہیں، جبکہ 37 فیصد کہتے ہیں کہ ٹرمپ غالب رہے۔ جناب ٹرمپ نے CNNکے جائزے کو تعصب سے آلودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوسرے جائزوں میں 72 سے 92 فیصد لوگوں نے انھیں فاتح گردانا ہے۔ صدر بائیڈن اور جناب ٹرمپ کے درمیان 27 جون کو ہونے والے مباحثے میں 67 فیصد افراد نے سابق صدر کو فاتح تسلیم کیا تھا۔

آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر Masood@MasoodAbdali پربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔