احیائے اسلام کی تحریک۔ ایک تعارف

281

(4)
مولانا مودودی کی سزائے عمر قید کے خلاف بھی احتجاج جاری رہا۔ اس احتجاج سے حکمران اتنے بوکھلا گئے کہ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے دستور ساز اسمبلی ہی توڑ دی جس میں اس احتجاج کی صدائے بازگشت گونج رہی تھی۔ کراچی اس وقت ملک کا دارالحکومت تھا اور دستور ساز اسمبلی کے اجلاس بھی کراچی میں ہوتے تھے۔ چنانچہ اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے اس حکم کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ نے مقدمے کی سماعت کے بعد اسپیکر کے حق میں فیصلہ دے دیا اور اسمبلی بحال کردی۔ گورنر جنرل اس فیصلے کے خلاف فیڈرل کورٹ (عدالت عظمیٰ) میں چلے گئے۔ جہاں عدالت نے گورنر جنرل کی پزیرائی کی اور ان کے اقدام کو نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دے دیا لیکن اپنے فیصلے میں لکھا کہ تاج برطانیہ کے نمائندے گورنر جنرل کو آر ڈیننس جاری کرنے یا قانون سازی کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اب تک جو آرڈیننس یا قانون جاری کیے گئے ہیں وہ سب منسوخ کیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں کوئی آئین نہ ہونے کے سبب اسے برطانوی قانون کے تحت چلایا جارہا تھا اور گورنر جنرل تاجِ برطانیہ کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ فیڈرل کورٹ (اُس زمانے میں عدالت عظمیٰ کی جگہ سب سے بڑی عدالت فیڈرل کورٹ ہوا کرتی تھی جس کے چیف جج جسٹس محمد منیر تھے) کا یہ فیصلہ اگرچہ انتہائی شرانگیز تھا اور ملک دستور کے ساتھ دستور ساز اسمبلی سے بھی محروم ہوگیا تھا لیکن اس شر سے خیر یہ برآمد ہوا تھا کہ تمام آرڈیننس اور آمرانہ قوانین منسوخ ہوگئے تھے اس میں وہ قانون بھی شامل تھا جس کے تحت مولانا مودودی کو قید میں رکھنے کا کوئی جواز باقی نہ رہا اور انہیں 25 ماہ بعد 29 اپریل 1955ء کو رہا کرنا پڑا۔ مولانا مودودی نے اس قید کے دوران دو دن ڈیتھ سیل میں نو دن شاہی قلعہ لاہور میں اور باقی عرصہ لاہور، میانوالی اور ملتان کی جیلوں میں گزارا جہاں انہوں نے تفہیم القرآن لکھنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

مولانا مودودی رہا ہوئے تو ملک کے حالات اس ڈگر پہ چل رہے تھے جس پر وہ اسے چھوڑ کر جیل گئے تھے۔ جماعت اسلامی ان کی غیر موجودگی میں بھی اسلامی دستور کی تشکیل اور نفاذ اسلام کی مہم چلاتی رہی اور جماعت کے قائدین جیل میں مولانا مودودی سے ملاقات کرکے ہدایات لیتے رہے۔ رہائی کے بعد مولانا نے امیر جماعت کا منصب سنبھالتے ہی ملک کی صورت حال پر اجتماعی غور و خوض کے لیے جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع بلانے کا فیصلہ کیا۔ اجتماع کی اجازت لینے میں کئی ماہ لگ گئے آخر نومبر 1955ء میں یہ اجتماع کراچی کے ککری گرائونڈ میں منعقد کرنے کی اجازت ملی۔ مولانا مودودی نے اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں فرمایا ’’بدقسمتی سے بعض لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ جماعت اسلامی کوئی سیاسی جماعت ہے جس کا مقصد سیاسی نظام کی اصلاح ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہمیں اپنی طاقت کا بڑا حصہ اس کوشش پر صرف کرنا پڑا ہے کہ پاکستان کا دستور اسلامی اصولوں پر بنایا جائے۔ یہ کوشش چونکہ بہت نمایاں رہی ہے اس لیے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی محض ایک سیاسی جماعت ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جماعت اسلامی احیائے اسلام کی ایک تحریک ہے جو زندگی کے ہر شعبے کو اس کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ انفرادی زندگی بھی اللہ کے دین پر قائم ہو اور پورے معاشرے کی زندگی بھی۔ عصر حاضر میں ایک جمہوری ریاست زندگی کے ہر شعبے اور پورے معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہے اس لیے اسے صحیح رخ پر رکھنا نہایت ضروری ہے۔

اجتماع میں ذمے داران جماعت نے ملک کی سیاسی صورت حال اور درپیش حالات میں جماعت اسلامی کی جدوجہد پر کھل کر روشنی ڈالی اور اتفاق رائے سے اسلامی دستور کی جلد از جلد تشکیل کے حق میں قرار داد منظور کی گئی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی وقت وزیراعظم چودھری محمد علی حکومت میں موجود سیکولر ٹولے کی رکاوٹوں کے باوجود ایک اسلامی دستور کی تشکیل میں بڑی سرگرمی سے مصروف تھے۔ ان کی سیاسی پارٹی کا نام ’’نظام اسلام پارٹی‘‘ تھا اور وہ اسلامی نظام کی داعی تھی۔ پرانی دستور ساز اسمبلی کی جگہ نئی اسمبلی قائم ہوچکی تھی اور اس کے ارکان بھی نئے دستور کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کررہے تھے۔ آخر یہ کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور 29 فروری 1956ء کو دستور ساز اسمبلی نے دستور منظور کرلیا۔ اس دستور میں سیکولر ٹولے کی تمام تر رکاوٹوں کے باوجود قرار داد مقاصد اور علمائے کرام کے بائیس نکات کو سمیٹ لیا گیا تھا اور اس میں وفاق اور صوبوں

کے تعلقات کا بھی لحاظ رکھا گیا تھا۔ اس طرح جماعت اسلامی کی وہ جدوجہد رنگ لے آئی تھی جو وہ گزشتہ ایک عشرے سے کررہی تھی اور جس کے لیے مولانا مودودی نے پھانسی کا پھندا چومنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ 23 مارچ 1956ء کو دستور نافذ کرنے کا اعلان کیا گیا تو پورے ملک میں بڑے پیمانے پر اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے بھی اس پر اپنے قلبی اطمینان کا اظہار کیا۔

1956ء کے اس آئین کے مطابق ملک کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا اور پاکستان کا سربراہ تاج برطانیہ کا نمائندہ گورنر جنرل نہ رہا بلکہ وہ ’’صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بن گیا۔ اُس وقت سکندر مرزا گورنر جنرل تھا جو جوڑ توڑ اور سازشوں کے ذریعے گورنر جنرل بنا تھا۔ چنانچہ وہی پاکستان کا پہلا صدر قرار پایا۔ یہ شخص درپردہ 1956ء کے آئین کے خلاف تھا اور وزیراعظم چودھری محمد علی (جو اس آئین کے محرک تھے) کے خلاف سخت بغض رکھتا تھا۔ اس نے آئین منظور اور نافذ ہوتے ہی چودھری محمد علی کو وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کرنے کی سازش شروع کردی اور مسلم لیگی ارکان اسمبلی کو ان کی حمایت سے دستبردار ہونے پر آمادہ کرلیا۔ چودھری صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو باوقار انداز سے مستعفی ہوگئے۔ ان کے مستعفی ہوتے ہی صدر سکندر مرزا نے کھلم کھلا حکومت سازی میں مداخلت شروع کردی اور آئے دن وزیراعظم تبدیل ہونے لگے تاہم 1956ء کا آئین نافذ ہونے سے ملک بڑی حد تک شاہراہِ دستور پر آگیا تھا اور یہ بات طے ہوگئی تھی کہ آئین کے تحت ملک میں عام انتخابات 1959ء کے اوائل (یعنی فروری) میں ہوں گے۔ انتخابی فہرستیں تیار کی جارہی

تھیں اور سیاسی جماعتیں لنگر لنگوٹ کَس کر انتخابی میدان میں اُترنے کے لیے تیار تھیں کہ اس سے پہلے اپریل 1958ء میں کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس میں حکمران پارٹی نے بہت زور لگایا، سرکاری وسائل استعمال کیے لیکن ناکامی اس کا مقدر بن گئی اور جماعت اسلامی نے میدان مار لیا۔ کراچی اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ دارالحکومت میں جماعت اسلامی کی کامیابی نے سکندر مرزا کو لرزا کر رکھ دیا۔ عام انتخابات میں چار ماہ رہ گئے تھے کہ سکندر مرزا نے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کی ملی بھگت سے 8 اکتوبر 1958ء کو ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ مارشل لا کے صرف 19 دن ہی اس کے حصے میں آئے اور جنرل ایوب خان نے سکندر مرزا سے بندوق کی نوک پر استعفا لے کر 27 اکتوبر 1958ء کو براہِ راست اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ (جاری ہے)