یہ باتیں اب کسی اور ہی جہان کی لگتی ہیں۔ کروڑوں اربوں کی کرپشن، چوری اور فراڈ کے روزمرہ انکشافات میں کوئی یقین کرسکتا ہے وہ دن بھی تھے جب دکاندار کے پاس کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ سمجھا جاتا تھا۔ جب کوچنگ سینٹر تو کجا ٹیوشن پڑھانا بھی معیوب اور بچے کی نااہلی تعبیر کی جاتی تھی۔ بچوں سے صرف اتنا کہنا ہی ان کا خون خشک کردیا کرتا تھا کہ میں تمہارے باپ سے شکایت کروں گا۔ مہمانوں کے لیے خاص طور پر رکھی ہوئی رضائیاں، لحاف، چادریں اور تکیے اہتمام سے نکالے جاتے تھے جن سے نکلتی فینائل کی گولیوں کی خوشبو اور تکیوں پر کشیدہ خوش آمدید سے اخلاص اور محبت کی لپٹیں مہمان کو مسحور کردیا کرتی تھیں۔ جاتے سمے مہمان کسی بچے کو پانچ روپے دیتا تو پورا گھر نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا لیکن مہمان دے کر ہی رخصت ہوتا۔ کوکا کولا تیس پیسے کی آتی تھی اور اس کے اشتہار پر لکھا ہوتا تھا ’’کو کا کولا فرحت بخشتا ہے‘‘ لیکن پھر بھی دیسی مشروبات ہی پسند کیے جاتے تھے۔ لکڑیوں کو پھونک کر چولہے جلائے جاتے تھے۔ سل پر مرچیں پیس کر سالن پکائے جاتے تھے۔ پنکھے ہاتھ سے جھلے جاتے تھے۔ روح افزا سے تواضع کو مہمانداری کی حد تصور کیا جاتا تھا۔
1970کی دہائی میں بھٹو حکومت کے زمانے میں جب پاسپورٹ عام ہوا، لوگوں نے سعودی عرب اور دیگر ممالک کا رخ کیا اور غریبوں کی جھونپڑیوں میں بھی ٹی وی، وی سی آر اور فریج آنا شروع ہوئے تب اوپر بیان کردہ عہد اپنی طبعی عمر کو پہنچا اور ایک نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اب رشتے ناتے تعلق کی اس رومانویت سے محروم ہونے لگے جب دوچار پڑوسیوں کے ہاں سالن بھیجے بغیر کھایا نہیں جاتا تھا۔ اب فریج میں محفوظ کیا جانے لگا۔ انفرادی ترقی اور خوشحالی اجتماعی تعلقات پر غالب آنے لگی۔ پاکستان میں سطح کے نیچے اور سماج کے رگ وریشے میںغیر محسوس طریقے سے تبدیلی آنا شروع ہوئی۔1990 سے یہ تبدیلیاں برسرزمین دکھائی دینے لگیں۔ اگلی تین دہائیوں میں جنہوں نے پاکستان کو بہت کچھ بدل کررکھ دیا۔ آج کا پاکستان اس پاکستان سے سیاسی، سماجی، عمرانی اور ثقافتی اعتبار سے بہت مختلف ہے۔ 90 کی دہائی میں دیہی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا۔ گھر کے ایک یا دوافراد کھیتی باڑی یا دیگر کام کرتے تھے اور اسی سے پورے خاندان کی گزر بسر ہوتی تھی۔ آج صورتحال مختلف ہے۔ زراعت کا حصہ جس تناسب سے معیشت میں کم ہوا ہے اسی تناسب سے سرمائے کی یلغار نے دیہی معاشرے میں زندگی کے اخراجات میں اضافہ کردیا۔ مشترکہ خاندانی ڈھانچے کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ 1949-50 میں زرعی شعبہ پاکستان کے کل جی ڈی پی کا 53 فی صد سے بھی زیادہ تھا روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق جو 2017 تک آتے آتے 19.8 فی صد رہ گیا۔ پاکستان کے زیادہ تر دیہاتوں میں 90 کی دہائی کے ابتدائی برسوں تک بھی دودھ کی فروخت معیوب سمجھی جاتی تھی لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے رشتے استوار ہوئے تو دودھ تو ایک طرف اب برانڈڈ کمپنیوں کا پانی گائوں کے ہر محلے کی دکان پر فروخت کیا جارہا ہے اور کسی کو اس پر افسوس بھی نہیں۔
1990 کی دہائی تک گنتی کے چند بینک ہوا کرتے تھے۔ جب نجکاری کی پالیسی کا آغاز ہوا تو نجی شعبے میں ہونے والی ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری کے بڑے حصے نے اس شعبے کا رخ کیا کیونکہ اس شعبے میں شرح منافع سب سے زیادہ ہے۔ 30 جون 2017 تک پاکستان میں کاروبار کرنے والے شیڈول بینکوں کی تعداد 34 ہوچکی تھی جن کی شاخیں ملک کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010 تک پاکستان میں ایک لاکھ بالغ مردو خواتین کے لیے مختلف بینکوں کی 9 برانچیں موجود تھیں۔ یعنی تقریباً دس ہزار بالغ افراد کے لیے ایک بینک۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اب چار یا پانچ ہزار بالغ مرد وخواتین کے لیے بینک کی ایک برانچ موجود ہے۔ فاٹا، بلوچستان اور پختون خوا کے دور دراز قبائلی علاقے چھوڑ کر شاید ہی کوئی ایسا دیہات بچا ہو جہاں کسی نہ کسی بینک کی شاخ موجود نہ ہو۔ اس سے پاکستان میں سرمایہ داریت کی سرایت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سماج میں جہاں پانچ دس ہزار کی آبادی کے لیے بازار تک نہیں ہوا کرتا تھا اب وہاں پر بینک موجود ہیں۔ گائوں گائوں بینک بن جانے اور اے ٹی ایم کارڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے شہری نفسیات ہی گائوں میں داخل نہیں ہوئی ہے بلکہ اپنے ساتھ نفسی نفسی، بیگانگی اور تنہائی کا وہ احساس بھی لے کر آئی ہے جو پرانے سماجی بندھنوں کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں میں رئیل اسٹیٹ جس کے ساتھ تعمیرات کا شعبہ بھی منسلک ہے سب سے زیادہ ابھر کر سامنے آیا ہے۔ شہروں میں ہی نہیں گائوں اور قصبوں میں بھی بڑے پیمانے پر رہائشی کالونیاں اور ٹائون تعمیر کیے جارہے ہیں۔ پرانا طرز تعمیر جو ایک مخصوص ثقافتی زندگی کا نمائندہ تھا غائب ہوتا جارہا ہے۔ شہروں میں دڑبے نما گھر اور فلیٹوں کے جنگل معمول بن گئے ہیں۔ یہ شعبہ کالادھن سفید کرنے کا بڑا ذریعہ ہے۔ ایک پلاٹ کی فائل درجنوں بار فروخت کرکے قیمتوں میں اضافے کا ایک مصنوعی غبارہ بنتا ہے جو قرضوں کے غبارے میں مزید ہوا بھر دیتا ہے۔ اس جعلی معیشت نے ایک نام نہاد درمیانے طبقے کو جنم دیا ہے جس کی اخلاقیات اور نفسیات بیشتر جعلی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 1960 میں ملک کی 78 فی صد کے لگ بھگ آبادی دیہی علاقوں میں رہتی تھی اب یہ تناسب کم ہوکر 60 فی صد رہ گیا ہے۔ شہروں کی طرف دوڑ یعنی اربنائزیشن میں پاکستان جنوبی ایشیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی مناسبت سے شہری انفرا اسٹرکچر، بنیادی ضروریات اور سہولتوں کی شرح ترقی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پینے کے صاف پانی، بجلی، گیس، صحت، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولتوں کی عدم دستیابی نے شہروں کو جہنم بنا دیا ہے۔ دوسری طرف شہروں میں کام کرنے والے جب عید تہوار کے موقع پر دیہاتوں کا رُخ کرتے ہیں تو وہ اپنے مصنوعی بڑے پن کا ڈراما کرتے ہیں یوں دیہاتوں میں بھی کمرشلائزڈ فکر پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ دیہاتوں میں رئیل اسٹیٹ کی سرایت نے ایک نئی طرح کی اربنائزیشن کو جنم دیا ہے۔ رہائشی پروجیکٹس کے ساتھ ہی مارکیٹ کا ظہور ہوتا ہے۔ اس نیم اربنائزیشن نے روزمرہ زندگی میں ایک ایسی کمر شلائزیشن کو پیدا کیا ہے جس کا 90 کی دہائی سے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔
90 کی دہائی کے آخر میں دنیا بھر میں انفار میشن ٹیکنالوجی کا پھیلائو شروع ہوا۔ پاکستان میں وہ نسل جس نے کبھی لینڈلائن فون بھی نہیں دیکھا تھا وہ موبائل اور کمپیوٹر استعمال کرنے لگی۔ پچاسیوں نیوز، انٹرٹینمنٹ، اسپورٹس اور مذہبی ٹی وی چینل کام کرنے لگے حالانکہ 90 کی دہائی کے شروع میں ایک یا دو سرکاری ٹی وی چینل تھے۔ پاکستان میں جون 2020 میں موبائل فون صارفین کی تعداد 16 کروڑ 72 لاکھ 70 ہزار سے زائد تھی جب کہ تھری جی اور فورجی صارفین کی تعداد 8 کروڑ 24 لاکھ سے زائد تھی۔ ٹیکنالوجی کی ترقی سے ایک طرف ماضی کے گائوں، طرز معاشرت، کھانے اور بندھن خواب بنتے جارہے ہیں دوسری طرف ڈراموں اور ٹاک شوز کے ذریعے جدید سر مایہ دارانہ اخلاقیات اور اقدار عوام کے ذہنوں میں انڈیلی جارہی ہیں۔ عریانی، فحاشی اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حکمران طبقہ اور وہ مقدس گائیں جن پر بات کرنا ممنوع تھی اب سوشل میڈیا پر ان پر کھل کربات کی جارہی ہے۔ ایک طرف زندگی کی آسانیوں کے لوازمات میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف آبادی کی اکثریت آج بھی جانوروں سے بھی بدترزندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ وہ متوسط طبقہ جس میں مسابقت، ہٹ دھرمی اور ریاکاری بڑھ رہی اس کی نچلی پرتوں سے لے کر بالائی پرتوں تک سب معاشی دبائو کا شکار ہیں۔ پاکستانی معاشرہ ایک سرمایہ دارانہ معاشرہ بننے کی سمت گامزن ہے جس کے ساتھ ہی جمہوریت سے لے کر سرمایہ دارانہ نظام کے دیگر مظاہر کے تضادات اور ان کی حقیقتیں کھل کر عوام کے سامنے آرہی ہیں۔ سرمایہ داریت کی تاریکی اور سرمائے کی غلامی کا طوق فیصلہ کن اور قطعی انداز میں پاکستانی سماج پر غالب آجائے اسلام کی موجودگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔