نیو لبرل ازم کا معاشی تصور اور اِس کی تباہ کاریاں

387

آخری حصہ

1994ء میں پاور پالیسی بناتے وقت ورلڈ بینک اور حکومت نے کہا تھا کہ بجلی کے شعبے کی نجکاری سے حکومتی خسارے کم ہوں گے۔ اس طرح حکومت تعلیم، صحت اور روزگار کے منصوبوں پر سرمایہ کاری کر سکے گی۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی، جس کی وجہ سے روزگار بڑھے گا اور معیشت ترقی کرے گی۔ تاہم یہ سب کچھ جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوا اور عملاً تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتوں فراہمی کے بجائے عوام کو آئی پی پیز کے ظالمانہ اور ناجائز منافعوں کی ادائیگی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

ایک اکنامک سروے رپورٹ کے مطابق آئی پی پیز کی وجہ سے مجموعی طور پر 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ملک میں آئی۔ 1994-95ء میں لگنے والے پاور پلانٹس کی وجہ سے 6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملک میں آئی تھی۔ 2012ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 1994ء سے 2012ء تک آئی پی پیز 9 ارب ڈالر کا غیر ملکی سرمایہ ملک میں لائے اور ان 18 سال میں 160 ارب ڈالر سے زائد رقم منافعوں کی شکل میں اس ملک سے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کی گئی۔

پی پی آئی بی کی ویب سائٹ پر آئی پی پیز کے نام اور پیداواری صلاحیت سمیت معاہدے کی تاریخیں تو درج ہیں، تاہم ان آئی پی پیز کے مالکان، سرمایہ کاری اور آمدن کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ ان آئی پی پیز کی پیرنٹ کمپنیوں، مالکان یا سرمایہ کاری کی تفصیلات ان کی اپنی ویب سائٹوں پر بھی موجود نہیں ہیں، نہ ہی حکومت کے کسی اور ادارے نے تفصیلات مرتب کر رکھی ہیں۔ کچھ آئی پی پیز کی ویب سائٹس ہی موجود نہیں ہیں۔ تاہم مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ان کمپنیوں میں زیادہ تر پاکستانی سرمایہ داروں کی ملکیت میں ہی ہیں۔ کچھ کمپنیوں میں غیرملکی شیئر ہولڈرز موجود ہیں، کچھ کمپنیاں غیر ملکی ہیں اور وہ پاکستانی عسکری اداروں اور نجی کمپنیوں کے اشتراک سے یہ آئی پی پیز چلا رہی ہیں۔ ان آئی پی پیز میں امریکا، جاپان، جرمنی، آئرلینڈ، فرانس، موریشس، چین، دبئی اور ملائشیا وغیرہ کی سرمایہ کاری موجود ہے۔ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کی رجسٹریشن ٹیکس ہیونز، برٹش ورجن آئی لینڈ وغیرہ میں ظاہر کی گئی ہے۔ زیادہ تر کی سرمایہ کاری پاکستانی سرمایہ دار گروپوں کے اشتراک سے ہی موجود ہے۔

ان پاکستانی سرمایہ دار گروپوں میں نشاط گروپ، سہگل گروپ، ڈسکان، گل احمد گروپ، صبا گروپ اور دیگر شامل ہیں۔ فوجی فرٹیلائزر و دیگر فوجی ادارے بھی آئی پی پیز کے یا تو مالک ہیں یا پھر شریک حصہ دار ہیں۔ پاکستانی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد بھی مالکان اور حصہ داران میں موجود ہے۔ ان سیاستدانوں میں جہانگیر ترین، آصف علی زرداری، عبدالرزاق داؤد، یوسف رضا گیلانی، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خسرو بختیار، سلیم سیف اللہ سمیت دیگر سیاستدان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ریٹائرڈ بیوروکریٹس اور سابق ڈپلومیٹس بھی شریک حصہ دار ہیں۔

آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے داموں بجلی کے معاہدوں اور کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ڈالروں میں ادائیگیوں کے باعث آج عوام کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ لوگ بجلی کے بل دینے کے لیے گھریلو اشیا بیچنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کرتے وقت حکمران طبقے نے ان کمپنیوں کے مفادات کا خوب تحفظ کیا۔ حالیہ عرصے میں میڈیا نے آئی پی پیز کی لوٹ مار کو بے نقاب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق توانائی سیکٹر کے جن 5 بڑے پاور ہائوسز کو ٹیکس فری ادائیگیاں کی گئیں ان میں حب پاور کو 260 ارب، اینگرو کو 74 ارب، لکی گروپ کو 62 ارب، سفائر کو 34 ارب روپے اور میاں منشا کے پاور ہائوسز جو کہ صرف 13 فی صد صلاحیت پر چلے، ان کو سالانہ بجلی کی مد میں 25.6 ارب ادائیگی کر کے عوام کو خوب لْوٹا گیا۔ المیہ یہ ہے کہ ایک ایسا ملک جو چند ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کی تاریخ ساز ظالمانہ شرائط کے آگے ڈھیر ہونے پر مجبور ہے، وہاں عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے مفت میں چند سرمایہ داروں میں بانٹے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف سے 1958 سے لیکر اب تک تقریباً 31 ارب ڈالر کا قرض لیا جبکہ اسی ملک میں صرف منشا گروپ کو کپیسٹی چارجز کی مد میں ایک سال میں 24 ارب روپے ادا کیے گئے۔ ایف پی پی سی کے مطابق آئی پی پیز ماہانہ 150 ارب روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں وصول کر رہی ہیں۔ چونکہ زیادہ تر کمپنیوں کے مالکان کا تعلق حکمران طبقہ سے ہے اس لیے کوئی پوچھنے والا نہیں۔