ہم نبی رحمت ﷺ کی امت ہیں۔ وہ رحمت ہی نہیں رحمۃ للعالمین ہیں۔ آپؐ کی حیات طیبہ زندگی کے ہر شعبے میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر اچھے بھلے لوگ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں بلکہ گھروں اور خاندانوں میں معمولی تکرار کے نتیجے میں لوگوں کے انتقامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں کتنی مار پٹائی اور خون ریزی ہوتی ہے، ہر آدمی جانتا ہے۔ دراصل یہ سب کچھ ذہنی وفکری تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ غصہ شیطان کی طرف سے اکساہٹ کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ ایک صحابی آپؐ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسولؐ! مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: لَا تَغضَب، یعنی غصہ نہ کیا کر۔ انھوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کچھ مزید فرمایئے۔ آپؐ نے پھر فرمایا: غصہ نہ کیا کر۔ جب انھوں نے تیسری مرتبہ درخواست کی تو بھی آپؐ نے وہی نصیحت فرمائی۔ (بخاری، عن ابی ہریرہؓ)
آپؐ کے خادمِ خاص سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے 10 سال آپؐ کی خدمت کی۔ اس عرصے میں کم سنی کی وجہ سے مجھ سے کبھی کوئی کوتاہی اور غلطی بھی ہوجاتی تھی مگر آپؐ نے کبھی ایک دن بھی نہ مجھے ڈانٹا نہ سخت سْست کہا بلکہ ہر مرتبہ مجھے یَابْنَیَّ (اے میرے پیارے بیٹے) کہہ کر خطاب فرمایا۔ سیدنا انسؓ ہی کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: اے بیٹے! کبھی کسی کے بارے میں دل میں میل نہ رکھنا، یہ میری سنت ہے اور جو میری سنت سے محبت کرے گا وہ جنّت میں میرے ساتھ ہوگا۔
نبی اکرمؐ خود بھی ہمیشہ اپنے غصے کو پی جاتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کی آپؐ نے جو تربیت فرمائی اس کے مطابق صحابہ میں بھی یہ صفت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی۔ انسان کی طبیعت میں اللہ نے نرمی وگرمی، غصہ ومحبت، شیرینی وتلخی اور عفو وانتقام کا عجیب امتزاج پیدا کیا ہے۔ یہ سارے جذبات ہر ابن آدم کے اندر پائے جاتے ہیں۔ ان کے اندر توازن، انسانی شخصیت کا حْسن کہلاتا ہے اور ان میں سے منفی جذبات کو کنٹرول کرکے مثبت جذبات کو پروان چڑھانا، حْسن وجمال اور کمال انسانیت ہے۔ یہ صفات بہت عظیم اور یہ کام بہت اچھا ہے مگر اس میں بڑی محنت لگتی ہے اور یہ رْتبۂ بلند اسی کو ملتا ہے، جسے خدا بخشے۔ خدا کی توفیق انھی کو ملتی ہے جو اس کے طلب گار ہوں۔ غصے کو پی جانا، عفو ودرگزر اور مخلوق خدا کے ساتھ حسن سلوک کرنا متقین کی علامت اور اہلِ جنت کی صفت ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ’’دوڑ کر چلو اس راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، خواہ بدحال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن: 133-134)
ہمارے آقا ومولاؐ غصے کو پی جانے والے، عفو ودرگزر کا مجسمہ تھے۔ آپؐ احسان وانعام سے دشمنوں کو بھی نواز دینے والے عظیم انسان تھے۔ آپؐ کی زندگی میں جو مشکل ترین لمحات آئے، ان میں سفر طائف خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ قبیلہ بنوثقیف کے تینوں سرداروں نے آپؐ کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ یہ بدبخت آپؐ کے ساتھ جس طرح پیش آئے وہ کمینگی کی بدترین مثال ہے۔ جوں ہی آپؐ ان کی مجلس سے نکلے، یہ بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے نکل کھڑے ہوئے اور اپنے بدقماشوں اور لونڈوں کو اشارہ کیا۔ وہ آپؐ کو گالیاں دیتے جاتے اور آپ کا مذاق اڑاتے، تالیاں بھی پیٹتے۔ یہی نہیں آپؐ پر ہر جانب سے پتھروں کی بارش بھی شروع ہوگئی۔ آپؐ پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ آپؐ لہولہان ہوگئے، جوتے خون سے بھر گئے۔ جب آپؐ تھک ہار کر کہیں بیٹھ جاتے تو وہ آپؐ کو بازؤں سے پکڑ کر کھڑا کردیتے، جب چلنے لگتے تو پھر اپنی اسی خباثت کا اعادہ کرتے۔ یہاں تک کہ آپؐ شہر سے باہر نکل آئے۔
مؤرخ ابن سعد کے مطابق آپؐ نے طائف کے علاقے میں دس دن گزارے اور جب آپؐ پر ظلم وستم شروع ہوا تو زید بن حارثہؓ آپؐ کی ڈھال بن گئے اور وہ بھی زخمی ہوئے۔ آپؐ کے پاؤں پر پتھر مارے گئے، جب کہ زید بن حارثہؓ کے سر کو نشانہ بنایا گیا۔ لیکن انھیں اپنی جان کی فکر نہیں تھی، وہ آپؐ کے غم میں ہلکان ہوئے جارہے تھے۔ وادیِ نخلہ میں بھی آپؐ کئی دن ٹھیرے رہے۔ زید بن حارثہؓ آپؐ کے زخموں کو چشمے کے پانی سے صاف کرتے اور ان پر پٹی باندھتے۔ ایک دن زید بن حارثہؓ نے روتے ہوئے کہا: ’’یارسول اللہ! اب آپ قریش کے پاس کیسے جائیں گے، جب کہ انھوں نے اپنے طرزِ عمل سے آپؐ کو مکہ سے نکال دیا ہے‘‘۔ ایسی نازک گھڑی میں جس پختہ ایمان اور عزمِ صمیم کے ساتھ آپؐ نے اپنی کامیابی کو یقینی قرار دیا، وہ ایک نبی ہی کی شان ہے۔ یارب صلّ وَسَلِّم عَلَیہِ! آپؐ نے فرمایا، ترجمہ: ’’اے زید! کوئی غم نہ کر، یقیناً اللہ تعالیٰ اس تنگی کو جو تو دیکھ رہا ہے فراخی میں بدل دے گا اور ان مشکلات کو ختم کردے گا اور یقینا اللہ اپنے دین کا مددگار اور اپنے نبی کی کامیابی کا ضامن ہے‘‘۔ (طبقات ابن سعد)
طائف سے واپسی پر آپؐ وادیِ نخلہ میں مقیم تھے۔ رات کا وقت تھا، آپؐ نے اللہ کے سامنے یہ دعا مانگی، ترجمہ:
’’اے اللہ! میں تیرے حضور اپنی مصیبت اور الم وغم، بے بسی اور بے چارگی اور لوگوں کی نگاہ میں اپنی بے قدری وبے وقعتی کا شکوہ پیش کرتا ہوں۔ اے ارحم الراحمین! کمزوروں اور ضعیفوں کا تو رب ہے اور میرا رب بھی تو ہی ہے۔ اے اللہ تو مجھے کس کے حوالے کررہا ہے؟ کسی بیگانے کے حوالے جو میرے ساتھ درشت رویہ اختیار کرے یا کسی دشمن کے سپرد کررہا ہے جو مجھ پر حاوی ہوجائے۔ اے اللہ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی کی کوئی پروا ہے نہ کسی مصیبت کا غم۔ اگر تیری جناب سے مجھے عافیت نصیب ہوجائے تو اس میں میرے لیے کشادگی ہی کشادگی ہے۔ اے اللہ! تیری ذاتِ بابرکات کے اس نور کا واسطہ دے کر خود کو تیری پناہ میں دیتا ہوں جو تاریکیوں کو روشنی میں بدل دیتا ہے اور دنیا وآخرت کے ہر معاملے کو درست فرمادیتا ہے۔ اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ کبھی تیرا غضب مجھ پر نازل ہو یا میں تیری ناراضی کی زد میں آجاؤں۔ میں تو تیری رضا پہ راضی ہوں اور آرزو ہے کہ تو بھی مجھ سے راضی ہوجائے۔ مولاے کریم! تیرے بغیر نہ کوئی زور ہے نہ طاقت۔ (تفسیرابن کثیر، جزالسادس، سورئہ احقاف)
ابن ہشام نے اپنی تصنیف السیرۃ النبویہ کے صفحہ 420 پر یہی دعا لکھی ہے۔ یہ دعا اتنی عظیم الشان ہے کہ اللہ کے راستے میں کام کرنے والوں کو ہر روز مانگنی چاہیے۔ کچھ بعید نہیں کہ آپؐ نے طائف سے نکلنے پر بھی، پھر وادیِ نخلہ میں قیام اور اس کے بعد حرا پہنچنے تک کے دنوں میں مسلسل اس کا ورد کیا ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ دل میں اترتا ہے اور اگر حضوریِ قلب اور مکمل عاجزی کے ساتھ یہ دعا رب ذوالجلال کے حضور پیش کی جائے تو اس کی قبولیت میں کوئی شک نہیں۔ آج اہلِ اسلام پوری دنیا میں ظلم کی جس چکی میں پس رہے ہیں، اسے دیکھ کر دل شق ہوجاتا ہے اور کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔
سیّدابوالاعلیٰ مودودیؒ سورۂ احقاف کے دیباچے میں لکھتے ہیں: ’’دل شکستہ وغم گین پلٹ کر جب آپؐ قرن المنازل کے قریب پہنچے تو محسوس ہوا کہ آسمان پر ایک بادل سا چھایا ہوا ہے۔ نظر اٹھاکر دیکھا تو جبریلؑ سامنے تھے۔ انھوں نے پکار کر کہا: ’’اے محمدؐ! آپؐ کی قوم نے جو کچھ آپؐ کو جواب دیا ہے اللہ نے اسے سن لیا۔ اب یہ پہاڑوں کا منتظم فرشتہ اللہ نے بھیجا ہے، آپؐ جو حکم دینا چاہیں اسے دے سکتے ہیں۔ پھر پہاڑوں کے فرشتے نے آپؐ کو سلام کرکے عرض کیا: آپؐ فرمائیں تو دونوں طرف کے پہاڑ ان لوگوں پر الٹ دوں؟‘‘ آپؐ نے جواب دیا: ’’نہیں، بلکہ میں اْمید رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی نسل سے وہ لوگ پیدا کرے گا جو اللہ وحدہٗ لاشریک کی بندگی کریں گے۔‘‘ (تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص 597 بحوالہ، بخاری و مسلم)
آپؐ کی زندگی کا نازک ترین لمحہ سفر ہجرت کے لیے نکلنا تھا۔ ہجرت کے موقع پر آپؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ افراد تھے جو آپؐ کو قتل کرنا چاہتے تھے۔ ان میں سے گیارہ بدر کے میدان میں قتل ہوگئے۔ باقی جو تین بچے انھیں فتح مکہ کے موقع پر آپؐ نے اتنا نوازا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی سفر کے دوران جب آپؐ کو پکڑنے کے لیے لوگ آپؐ کا تعاقب کررہے تھے تو سراقہ بن مالک آپؐ تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا، مگر آپؐ اللہ کی حفاظت میں تھے۔ سو اونٹوں کے لالچ میں آنے والا یوں بے بس ہوا کہ مجبوراً اسے کہنا پڑا: اے عبدالمطلب کے بیٹے! مجھے معاف فرمادیجیے۔ آپؐ نے کہا: میں نے تمھیں معاف کردیا۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے لکھ بھی دیجیے تو آپؐ نے سیدنا ابوبکرؓ سے فرمایا کہ اسے لکھ کر دے دیں۔ یہ ایک معجزہ ہے جس میں آپؐ کی علم دوستی کے ساتھ عفو ودرگزر کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ اس دور میں قیصر وکسریٰ کے لیے بھی ہنگامی سفر کے دوران کسی کو تحریر لکھ کر دینا ناممکن تھا۔ آپؐ کے صحابہ پہلی وحی آنے کے بعد قلم ودوات اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول)
آپؐ نے سراقہ کو یہ بھی کہا کہ اس کے ہاتھوں میں ایک دن کسریٰ کے سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سراقہ کو یقین نہ آیا، مگر تاریخ نے دیکھا کہ یہ قولِ رسولؐ سچ ثابت ہوا اور سیدنا عمرؓ کے دور میں سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ نے مدائن فتح کیا تو کسریٰ کے سونے کے کنگن بھی مالِ غنیمت میں مدینہ بھیجے۔ سیدنا عمرؓ نے یہ کنگن سراقہ کے ہاتھ میں پہنائے اور پھر فرمایا کہ یہ اپنی بیوی، بیٹی یا بہو کو دے دینا۔ کیوںکہ آپؐ نے آخری ایام میں اپنی امت کے مردوں کے لیے سونا اور ریشم پہننا ممنوع قرار دے دیا تھا۔ فتح مکہ کے وقت سراقہ مسلمان ہوگئے اور آپؐ کی خدمت میں مکہ کے باہر وادیِ جعرانہ میں حاضر ہوئے۔ آپؐ کی تحریر کردہ امان جو چمڑے کے ٹکڑے پر لکھی ہوئی تھی آپؐ کو دکھائی تو آپؐ نے فرمایا آج کا دن نیکی اور وفا کا دن ہے۔ پھر صحابہؓ کو حکم دیا کہ سراقہ کو سو بکریاں دے دو۔ یہ ہے اسوۂ رسولؐ۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج1 )
آپؐ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں میں پہلا معرکہ غزوۂ بدر تھا۔ اس میں 313 صحابہ کو کفارِ مکہ کے ایک ہزار کے لشکر پر عظیم الشان فتح ملی۔ 70 دشمن تہہ تیغ ہوگئے اور 70 جنگی قیدی بنا لیے گئے۔ آپؐ نے اپنے شہید ہونے والے چودہ صحابہ کو جب بدر کے میدان میں دفن کیا تو صحابہ کو حکم دیا کہ کفار کی بکھری ہوئی لاشوں کو بھی ایک گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیں۔ اسی موقع پر آپؐ نے ان دشمنوں کے بارے میں کہا کہ ہر انسان کا یہ حق ہے کہ اسے موت کے بعد دفن کیا جائے تاکہ درندے اس کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں۔ جہاں تک جنگی قیدیوں کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں آپؐ نے ارشاد فرمایا: ان میں سے ہر ایک کو کھانا کھلایا جائے، زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے اور جن کے کپڑے پھٹ گئے ہیں ان کو نئے کپڑے پہنائے جائیں۔ صحابہؐ نے اس پر عمل کیا۔ اس طرزِ عمل کے نتیجے میں بہت سارے جنگی قیدی اسلام میں داخل ہوئے۔
ایک جنگی قیدی سہیل بن عمرو قریش کے سرداروں میں سے تھا۔ وہ شعلہ نوا خطیب تھا اور اسلام کے خلاف کفار کو ابھارتا رہتا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ اس کے دانت تڑوادیں تاکہ اس کی شعلہ نوائی ختم ہوجائے۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے عمر! یہ جنگی قیدی ہے۔ اگر میں اس کے ساتھ یہ سلوک کروں گا تو اللہ میرے دانت تڑوا دے گا، حالانکہ میں اس کا سچا رسول ہوں۔ ساتھ ہی فرمایا: تمھیں کیا معلوم کہ ایک دن اس کی خطابت سے تمھارے دل ٹھنڈے ہوجائیں۔ (سیرۃ ابن ہشام، القسم الاول)
آپؐ کا یہ فرمان آپؐ کی رحلت کے بعد مکمل طور پر امت کے سامنے آیا۔ جب ہر جانب اسلام کے خلاف بغاوت شروع ہوگئی تو مکہ میں سہیل بن عمروؓ تلوار لے کر خانہ کعبہ میں آئے اور تمام قریش کو پکارا۔ جب سب لوگ آگئے تو فرمایا: خبردار اگر کسی نے اسلام کے خلاف کوئی حرکت کی۔ اگر کوئی بغاوت کرے گا تو اس کی گردن کاٹ دی جائے گی۔ مکہ میں صورت حال ایسی تھی کہ مکہ کے گورنر عتاب بن اسیدؓ بھی مکہ سے نکل کر پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔ اس موقع پر سہیل بن عمروؓ نے صورت حال کو جس طرح سے سنبھالا اس کی خبر مدینہ میں پہنچی تو سیدنا عمرؓ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور انھوں نے کہا: اللہ کے رسولؐ کا ہر فرمان سچ ثابت ہوا۔ (الاصابہ، ج2)
مکی زندگی میں آپؐ پر بے انتہا مظالم ڈھائے گئے۔ ان کی تفصیل پڑھ کر بندۂ مومن کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔ جس شہر کے لوگوں نے آپؐ سے دشمنی میں ہر انسانی اخلاق پامال کیا، اسے اللہ نے آپؐ کے سامنے سرنگوں کردیا۔ مکہ میں آپؐ رمضان 8ھ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آپؐ کے ایک علَم بردار سعد بن عبادہؓ جوش ایمانی سے پکار اٹھے: آج خون ریزی اور قتل کا دن ہے، آج حرمتیں حلت میں بدل جائیں گی۔ یہ بات، آپؐ کے جاں نثار صحابہ عثمان بن عفان اور عبدالرحمان بن عوفؓ نے بھی سنی اور سردار قریش، ابوسفیان، جو عباسؓ کی پناہ میں تھا اور یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس کے کان بھی اس نعرے سے آشنا ہوئے۔ جب آپؐ کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ نے فرمایا: نہیں، آج کا دن خون ریزی کا دن نہیں بلکہ کعبہ کی تعظیم اور اہل مکہ کی عزت کا دن ہے۔ فاتح اعظم فتح کی گھڑی میں فرمارہے تھے کہ خون کی ندیاں نہیں رحمت کا دریا بہے گا۔ پھر آپؐ نے سیدنا سعدؓ سے جھنڈا واپس لے لیا۔ یہ جھنڈا کسی اور صحابی کو بھی دیا جاسکتا تھا مگر دْور رس نگاہ رکھنے والے سالارِ اعظم نے سیدنا سعدؓ کے بیٹے قیسؓ کو جھنڈا مرحمت فرمادیا۔ اب مکہ میں فاتحانہ داخل ہونے کے بعد آپؐ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بتوں سے پاک کیا۔ خانہ کعبہ کے اندر آپؐ کے ساتھ اسامہ بن زید، علی بن ابی طالب اور سیدنا بلالؓ موجود تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ)
خانہ کعبہ میں نفل ادا کرنے کے بعد آپؐ نے خانہ کعبہ کے دروازے میں کھڑے ہوکر مجمع پر نظرڈالی۔ سرکش قریش آج مغلوب تھے۔ اکڑی ہوئی گردنیں خمیدہ تھیں۔ آپؐ نے ایک مؤثر خطبہ دیا، جس میں اللہ کی توحید وعظمت، اس کی مدد ونصرت، اس کے وعدوں کی صداقت اور اسلام دشمن قوتوں کی شکست کا ذکر تھا۔ پھر آپؐ نے انسانیت کی مساوات کا تذکرہ فرما کر کبر ونخوت کو اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنے کا اعلان فرمایا۔ اب قریش دم سادھے منتظر تھے کہ ان کے بارے میں کیا حکم صادر ہوتاہے۔ آپؐ مجمع سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: ’’اے اہلِ قریش، تمھارا کیا خیال ہے میں تمھارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ بہ یک زبان پکار اٹھے، ہمیں آپؐ سے حْسنِ سلوک کی امید ہے۔ آپؐ، ہمارے مہربان بھائی اور مہربان بھتیجے ہیں۔ یہ بے بسی کا اظہار بھی تھا اور حقیقت کا اعتراف بھی۔ یہ انھی لوگوں کی زبان سے سامنے آرہا تھا، جنھوں نے خود کو ہمیشہ سرکش اور ناقابلِ شکست قرار دیا تھا اور اس مہربان بھائی اور بھتیجے کو ہمیشہ بے وقعت گردانا تھا۔
اب ہمارے آقا ومولا عظمتوں اور رفعتوں کے امین نے فرمایا: ’’میں تم سے وہی بات کہوں گا، جو میرے بھائی یوسفؑ نے مصر کے تخت پر بیٹھے اپنے برادران سے کہی تھی: لَاتَثرِیبَ عَلَیکْمْ الیَومَ، اِذھَبْوا فَاَنتْمْ الطّْلَقَاء، یعنی آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔ مکہ میں داخل ہوتے وقت آپؐ نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص مسجد حرام میں داخل ہوجائے، اس سے کوئی مواخذہ نہ کیا جائے، جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے یا اس کی دیوار کے سایے میں بیٹھ جائے، اس سے بھی کوئی مواخذہ نہ کیا جائے۔ اللہ کے گھر کی تعظیم کرنے والے نے اپنے دشمن کو بھی تکریم کا مستحق قرار دیا، سبحان اللہ۔ (البدایہ والنہایہ، جلد اول)
آپؐ نے کچھ دن مکہ میں قیام فرمایا، مختلف مواقع پر خطبات عام سے بھی اہلِ مکہ کو نوازا۔ اسی دوران آپؐ کی خدمت میں ابوجہل کی بہو اور عکرمہ کی بیوی ام حکیم حاضرہوئی، جس کے ساتھ عکرمہ کے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے۔ آپؐ نے دشمن کی بیوی اور بہو کو بھی پورا پورا احترام دیا اور اپنے مدمقابل کے بچوں کے سرپہ دستِ شفقت رکھا اور صرف یہی نہیں بلکہ کمالِ محبت سے ان کے باپ کا حال پوچھا اور اس کے بارے میں نیک جذبات کا اظہار کیا۔ پھر جب عکرمہ واپس مکہ آیا تو آپؐ نے اسے حرم میں باب بنو شیبہ سے داخل ہوتے دیکھ کر فرمایا: ’’خوش آمدید گھر بار چھوڑ کر جانے والے‘‘ اور کھلے ہوئے بازؤں کے ساتھ اسے سینے سے لگا لیا۔ احد کے میدان میں آپؐ کو شدید بدنی وذہنی زخم لگائے گئے۔ آپؐ کے محبوب چچا، سیّدالشہدا سیدنا حمزہؓ بن عبدالمطلب کی لاش کا مثلہ کیا گیا۔ سیدنا حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی ہند بنت عتبہ بھی بیعت کے لیے حاضر ہوئی مگر اللہ کے رسولؐ نے نہ صرف یہ کہ اسے معاف فرمادیا بلکہ اس دردناک واقعے کی طرف کوئی اشارہ تک نہ کیا۔ انسان اگر بے بس ہو اور اپنے اعدا سے بدلہ نہ لے سکے تو بھی اس کا صبر، اس کے لیے باعث خیر ہے، تاہم وہ انتقام پر قادر ہو اور خوفِ خدا سے سرشار ہوکر انتقام کے بجاے عفو ودرگزر کا مظاہرہ کرے، تو یہ انسانیت کی معراج ہے۔ (سیرۃ ابن ہشام)
اسوۂ رسولؐ اس امت کی راہنمائی کے لیے کمال حسن وخوبی کے ساتھ سیرت میں جلوہ افروز ہے۔ انسان کی عظمت یہ نہیں کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے۔ عظمت یہ ہے کہ قوت کے باوجود انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھے اور مدمقابل کو معاف فرمادے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’قوت اور بہادری کسی کو پچھاڑ دینے کا نام نہیں بلکہ بہادر اور قوی وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس کو آپے سے باہر نہ ہونے دے‘‘۔ (متفق علیہ، عن ابی ہریرہؓ)
ہم پستی سے بلندی کی طرف اٹھنا چاہیں تو یہ ارادہ بڑا مبارک ہے۔ اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اسوۂ رسولؐ کی پیروی کامیابی کی یقینی کلید ہے۔ انسان کمزور ہے اور مغلوب الغضب ہوجاتا ہے۔ آتش انتقام بھڑک اٹھے تو اسے ٹھنڈا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان سارے مشکل اور کٹھن مرحلوں کو کامیابی سے سرکرنے کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اتباع رسول۔ اسی سے بندہ، اللہ کا محبوب اور بخشش خداوندی کا مستحق بنتا ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ اگر حقیقت میں تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ (اٰلِ عمرٰن: 13)
قارئین محترم! آئیں سچے دل سے ارادہ باندھ لیں اور اللہ سے عہد کریں کہ اتباع رسولؐ میں ہم بھی غصے وانتقام کی آگ بھڑکانے کی بجاے عفوودرگزر کا مرہم زخموں پر رکھیں گے۔ غصے پر قابو پانا سنتِ رسول ہے۔ مخالفین کو معاف کردینے والا روزِ محشر اللہ کے ہاں معافی کا مستحق قرار پائے گا اور ہر ایک کا دل اور جسم زخمی کرنے والا، انتقام کی آگ میں جلنے والا رحمت ربّانی سے محروم ہوگا۔ اسوۂ رسولؐ کی پیروی کرنے والا تو ایسا عظیم انسان ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا اور مخلوق کی محبت ووفا اس کا مقدر بن جاتی ہے ؎
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں