نیو لبرل ازم کا معاشی تصور اور اِس کی تباہ کاریاں

252

بعد میں آنے والی مختلف سِول اور فوجی حکومتوں نے بھی اِسی پالیسی کو معمولی رد وبدل کے ساتھ مزید پاور پلانٹس لگاتے ہوئے جاری رکھا۔ یوں 1994ء، 2002ء، 2015ء اور 2021ء کی توانائی پالیسیاں بنائی گئیں۔ ابتدا میں ان پاور پالیسیوں کے تحت پرائیویٹ پاور بورڈ (PPB) تشکیل دیا گیا۔ 2012ء میں سی پیک منصوبوں اور انفرا اسٹرکچر کی تعمیر کے مقصد کے تحت اس بورڈ کی تشکیل نو کی گئی اور پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ (PPIB) تشکیل دیا گیا۔ 2010ء میں قابل ِ تجدیدتوانائی کے لیے الٹرنیٹو انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ (AEDBA) بھی تشکیل دیا گیا۔ تاہم 2023ء میں PPIB ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے AEDBA کو بھی اس میں ضم کر دیا گیا۔ اس بورڈ کی تشکیل کا مقصد سرمایہ کاروں کو ’ون ونڈو آپریشن‘ کے تحت سرمایہ کاری کے لیے تیز ترین سہولت کے ساتھ ’سازگار ماحول‘ فراہم کرنا تھا۔

بینظیر بھٹو کے دور سے شروع ہونے والی یہ کہانی نواز شریف، پرویز مشرف، زرداری اور پھر 2013 میں تیسری بار اقتدار میں آنے والے نواز شریف کے عہد تک پھلتی پھولتی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ملک میں آئی پی پیز کا جمعہ بازار لگ گیا ہے۔ ان ادوار کے حکمرانوں نے بجلی کے مہنگے ترین معاہدے کیے جس کا خمیازہ آج عوام بھاری بھرکم بلوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ 2013 میں نواز شریف جب اقتدار میں آئے تو ان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ان کمپنیوں کا آڈٹ کرائے بغیر تقریباً 500 ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی مد میں من پسند آئی پی پیز کمپنیوں کو دے دیے۔ یہ ادائیگیاں بلز کی فوٹو کاپیوں پر قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کی گئیں جو بعد میں ایک بڑے اسکینڈل کی شکل میں عوام کے سامنے آئیں۔ اس وقت کے آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے ان ادائیگیوں پر قانونی اعتراضات اٹھائے۔ حکومت نے اس ’’گستاخی‘‘ پر آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو سزا کے طور ہمیشہ کے لیے گھر بھیج دیا تھا۔

اب تک مجموعی طور پر 22174 میگا واٹ پیداواری صلاحیت کے حامل 46 روایتی آئی پی پیز، 2635 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 51 قابل تجدید توانائی کے آئی پی پیز، سی پیک کے زیراہتمام 11648 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 13 روایتی، 1400 میگا واٹ صلاحیت کے حامل 17 ہوا اور سورج سے بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز پاکستان میں لگائے جا چکے ہیں۔ ان آئی پی پیز کی مجموعی تعداد 127 ہے۔ 22 آئی پی پیز زیر تعمیر ہیں، جن کی پیداواری صلاحیت 7357 میگا واٹ ہے۔ انہی منصوبوں کے تحت سی پیک کے زیر اہتمام نجی ٹرانسمیشن لائن بھی زیر تعمیر ہے۔

قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ ان آئی پی پیز کی تعمیر کے لیے پاور پالیسی کے تحت یہ گنجائش بھی فراہم کی گئی کہ 20 فی صد غیر ملکی سرمایہ کاری لا کر آئی پی پیز تعمیر کیے جا سکتے ہیں، جبکہ 80 فی صد رقم حکومت پاکستان کی گارنٹی پر پاکستانی بینکوں کو ان سرمایہ کاروں کو فراہم کرنا تھی۔ بعد ازاں کچھ منصوبوں میں ڈیبٹ ایکویٹی (debt equity) شرح 75:25 بھی کی گئی۔ مختلف آئی پی پیز کے ساتھ 15 سے 18 فی صد منافع ادا کرنے کے معاہدے کیے گئے۔ یہ ادائیگیاں امریکی کرنسی ڈالر میں ادا کی جانی طے پائیں۔ 2015ء کی پالیسی میں جاپانی، چینی، یورپین اور برطانوی کرنسی کو بھی شامل کیا گیا۔ تاہم مجموعی طور پر ان آئی پی پیز کو ادائیگیاں غیر ملکی کرنسی میں ہی کی جاتی ہیں۔

ان آئی پی پیز کو انکم ٹیکس، کسٹم ڈیوٹیز، سیلز ٹیکس سمیت دیگر ٹیکسوں میں مکمل استثنیٰ دیا گیا۔ رعایتی نرخوں پر بانڈز کے اجرا کی اجازت دی گئی۔ تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ’ویری ایبل کاسٹ‘ ادا کرنے کے علاوہ ادائیگیوں کو ڈالر کے ایکسچینج ریٹ اور افراط زر سے بھی منسلک کیا گیا۔ اس طرح اگر پاکستانی کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے تو آئی پی پیز کے فی یونٹ ریٹ میں کچھ سینٹس کا بھی اضافہ ہو جانا ہے۔ مختلف ٹیکسوں کی مد میں حاصل اِن رعایتوں کے نتیجے میں 90ء کی دہائی سے لے کر اب تک اِن آئی پیز کو اب تک 12 کھرب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔

نجی پاور پلانٹس کے ساتھ کیے گئے اِن معاہدوں میں سب سے بڑا ظلم کپیسٹی پے منٹس (پیداواری صلاحیت پر مبنی ادائیگیوں) کی شرط ہے، اور وہ بھی ڈالر میں۔ جس کی وجہ سے یہ آئی پی پیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں، ان کی پیداواری صلاحیت کے مطابق حکومت پاکستان اِن کی اِن کی پیداواری صلاحیت کے مطابق ڈالروں میں ادائیگیاں کرنے کی پابند ہیں۔ یہ وہ رقم ہے جو بجلی صارفین اْس بجلی کے بدلے ادا کرتی ہے جو نہ کبھی پیدا ہوئی اور نہ صارف نے استعمال کی، لیکن اس کے ادائیگی اسے ہر صورت میں کرنی ہے۔

آئی پی پیز کے ساتھ ابتداً کم از کم 25 سال کے معاہدے کیے گئے ہیں، تاہم بعد ازاں ن لیگ، پیپلز پارٹی، مشرف دور اور تحریک ِ انصاف دور میں بھی اِن معاہدوں کو ختم کرنے اور اِن کی طرف سے وصول کردہ 35 تا 40 ارب زائد وصولیاں واپس لینے کے بجائے قانون میں ترمیم کرکے معاہدے extend کیے گئے۔ سی پیک کے تحت لگنے والے منصوبوں میں البتہ ’بلڈ اون آپریٹ اینڈ ٹرانسفر‘، ’بلڈ آپریٹ ٹرانسفر‘، یا ’پرائیویٹ پبلک پارٹنر شپ‘ کے اصول طے کیے گئے، جس کے مطابق یہ منصوبے 25 سال تک چینی کمپنیوں اور بینکوں کی ملکیت میں رہنے کے بعد صوبوں، زیر انتظام علاقوں یا متعلقہ محکموں کی ملکیت میں چلے جانے تھے، لیکن extension کی رعایت ملنے کے بعد ایسا نہیں ہوسکا۔

اب صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں پیداواری صلاحیت کی نصف سے زائد بجلی نہ پیدا ہوتی ہے اور نہ استعمال ہوتی ہے، تاہم اس کا بل عوام الناس سے ریاستی جبر کے تحت باقاعدہ وصول کیا جاتا ہے۔ صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مالی سال 2023ء میں بجلی کے بلوں سے حاصل ہونے والی 2960 ارب روپے کی رقم میں سے 2010 ارب روپے کپیسٹی پے منٹس کی مد میں ادا کیے گئے، جوکہ کل ادا کردہ قیمت کا 71 فی صد بنتے ہیں، جبکہ خرچ شدہ بجلی کی اصل قیمت صرف 29 فی صد ہے۔ حال ہی میں وزیر توانائی اویس لغاری صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان خطے میں سب سے مہنگی بجلی پیدا کررہا ہے۔ جبکہ دوسری طرف سیکرٹری پاور ڈویژن نے بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو 15 ارب روپے کی مفت بجلی سالانہ دینے کا اقرار کیا ہے۔

کپیسٹی پے منٹس کی ادائیگیوں میں فرق کے باعث گردشی قرضے جنم لیتے ہیں، اس وقت 2300 ارب روپے سے زائد گردشی قرضے واجب الادا ہیں۔ گزشتہ سال 2000 ارب روپے کے گردشی قرضے یا کپیسٹی پے منٹس بجلی صارفین کی جیب سے نکال کر ادا کرنے کے باوجود گردشی قرضوں میں 650 ارب روپے کے مزید اضافے کی توقع ہے۔ اس کی بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بجلی کی گھریلو، کمرشل اور صنعتی کھپت میں مزید کمی اور نتیجتاً کم ہوتے صارفین پر بڑھتا ہوا کیپیسٹی پیمنٹ کا بوجھ ہے۔

آئندہ مالی سال 2024-25ء کے لیے کپیسٹی پے منٹس کا تخمینہ 2900 ارب روپے سے زائد ہے۔ دوسرے لفظوں میں بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس طرح بجلی کی فی یونٹ قیمت، جو اس وقت 60، 61 روپے تک پہنچ چکی ہے، میں رواں سال کے اختتام تک مزید ہوشربا اضافے کا امکان ہے۔ حکمرانوں کے ان ناجائز اور ظالمانہ و غلط معاہدوں کا خمیازہ غریب عوام بْھگت رہے ہیں۔ (جاری ہے)