نبی کریمؐ کے لیے میرے احساسات

298

سرور کونین، رحمت العالمین، خاتم النبیین سیدنا محمد مصطفیؐ کے بارے میں کچھ لکھنا، کچھ محسوسات کی ادائیگی، کچھ دلی کیفیات کو لفظوں کا جامہ پہنا کر اپنے قاری کے گوش گزار کرنا بلاشبہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ جاننا بہت ضروری ہے جس ہستی پر میرا دعویٰ ہے کہ میرا تمام مال ومتاع، عزت وآبرو، میرے ماں باپ، میری اولاد، میری ہر سانس، میری دنیا کی ہر عزیز ترین شے قربان ہے۔ جس کی اتباع ہی میں دونوں جہانوں کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے اس کے لیے میرے احساسات کیا ہیں؟

ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ اگر آپ کو جاننا ہو کہ آپ سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں تو یہ جاننے کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر آپ اسے موجود پائیں گے۔ اس سے پہلے میں محبت کے مفہوم سے نا آشنا تھی لیکن اس کسوٹی پہ خود کو پرکھنے کے بعد میں نے اپنے محبوب کو پا لیا۔ وہ میرا غم خوار، میری بخشش کے لیے ربّ کے آگے گڑگڑانے والا، اپنی اس امت کے لیے راتوں کو طویل سجود و قیام کرنے والا، انسانیت کا سب سے بڑا محسن، حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار، خاتم النبیین عظیم تر نبی سیدنا محمدؐ ہیں۔ میری زندگی کے ہر موڑ ہر سانس ہر آنسو میں اس نبی کریمؐ کا اسوہ میرے ساتھ ہے۔ میرے ہر دکھ، سکھ، پریشانی، تنہائی، ہجوم، ہنسی، آنسو، سب میں اس کی سنتیں میرے ساتھ موجود ہیں۔ ہر وقت میرا مخاطب، میری روح کا ساتھی، میرا بیسٹ فرینڈ، میرا ہمراز، میرا استاد، میرا پیر ِ کامل، میرا مرشد، میرا حقیقی غم خوار، میراراہ نما میرے ساتھ اپنی سنتوں کے ساتھ موجود ہے۔

مجھے لگتا ہے وہ اشارے کنایوں میں مجھ سے باتیں کرتا ہے۔ ہر غلطی پہ ڈانٹتا، ہر اچھائی پہ شاباش دیتا، ہر برائی کرنے سے بچا لیتا ہے، ہر تکلیف ہر غم میں جب میں سیرت کے صفحات کھولتی ہوں تو اپنا پہاڑ جیسا غم اس عظیم ہستی کے غموں کے سامنے رائی کے دانے کا سامحسوس ہوتا ہے۔ چاہے بڑی سے بڑی پریشانی کیوں نہ آجائے اللہ سے جڑی میری امید کبھی ٹوٹنے نہیں دیتا۔ مجھے نبی کریمؐ کے اسوے کا سہارا ہمیشہ مجھے پرامید رکھتا ہے۔ اگر میرا ربّ مجھ سے میری پسندیدہ چیز اچانک سے مجھ دور کر دے تو میں گھبرا کر پلٹ کر نبی کریمؐ کی سیرت کا مطالعہ کرتی ہوں تو میں دیکھتی ہوں میرے محسن نے تو پیدائش سے یتیمی کا دکھ اٹھایا، پھر والدہ، پھر پرورش کرنے والے دادا کا دکھ سہنا پڑا۔ جوان ہوئے شادی کے بعد اولاد نرینہ کا دکھ پھر پسندیدہ بیوی کا دکھ۔ ایسے میں مجھے اپنا دکھ بہت ہی چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔

میں جب بھی کسی دکھ کسی مشکل میں مبتلا ہوتی ہوں بنی کریمؐ شعیب ابی طالب کی گھاٹی سے مجھے آواز دیتے ہیں کہ ذرا اپنا دکھ تو لائو آئو موازنہ کریں۔ پھر دل میں ایسا خیال آتا ہے کہ اس میں ضرور میرے اللہ پاک کی طرف سے کوئی بہتری اور حکمت پوشیدہ ہے۔ کیونکہ میں نے نبی کریمؐ کو اسی نمونے کی پیروی کرتے پایا ہے۔ میرے نبی نے اپنی اولاد کے غم میں اللہ سے کبھی شکوہ و شکایت کا حرف بھی کبھی زبان مبارک سے ادا نہ کیا تو میں اس کی پیروی کرنے والی کیسے اس کی سنتوں سے روگردانی کرکے اپنی مصیبتوں میں کسی کو قصوروار ٹھیرا سکتی ہوں؟ پھر وقت مجھے اس پریشانی کی حکمت کا کسی نہ کسی موڑ پر ادراک کروا دیتا ہے اور میرے منہ سے بے ساختہ درود پاک اداہوجاتا ہے۔

مجھے ہر انسان اس لیے خوبصورت لگتا ہے کیونکہ میرے نبی نے طائف کے بازار میں سنگ زنی اور خون آلود جوتے ہونے کے باوجود ان کے حق میں دعا کی۔ ہمیشہ ہر انسان سے محبت کا درس دیا۔ مجھے ہر برا اور بد اخلاق انسان قابل ِ رحم لگتا ہے کیونکہ اسے میرے جیسا راہ نما، ملنسار، محسن اور غم خوار نصیب نہیں ہوا یا پھر اس نے ایسی عظیم ہستی کو کبھی جاننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ مجھے ہر نیک انسان نبی کریم کے اسوہ کی پیروی کرنے والا لگتا ہے۔ یہ سوچ کر کہ یہ میرے محبوب کے نمونے کو اپناتے ہوئے کٹھن راہوں پر نیکی اور اسوہ کی راہ پر قائم ہے۔ میرا فخر میرا نبی ہے۔ فداک امی وابی۔ میں خوش قسمت ہوں جو اس نبی کی امتی ہوں۔

درود اس پر، جسے شمع شبستان ازل کہیے
درود اس ذات پر، فخرِ بنی آدم جسے کہیے