آج پوری مسلم دنیا اپنے پیارے نبی کی پیدائش کا دن منا رہی ہے بہت سے ملکوں میں عام تعطیل دی گئی ہے ، پاکستان اور ہندوستان میں تو جلسے جلوس وغیرہ سب ہوتے ہیں حکمران اس موقع پر بیانات دیتے ہیں، غرض سب ہی اپنے نبی سے اپنی وابستگی کا ثبوت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا سردار اور نبی ماننے کے بھی کچھ تقاضے ہیں ، کیا ہم نے اپنے نبی کو ہر معاملے میں اپنا رہنما بنایا ہے یا ہم دنیا کے دوسرے لوگوں کو اپنا رہبر مانتے ہیں۔ اس بات کو جاننے کیلیے ہمارے پاس پیمانہ بھی ہے اور وہ سنتِ مبارکہ کی اتباع ہے، سب سے پہلے تو ہمیں اپنے نبی کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے ،تاکہ ہمہ وقت شعور اور بیداری کی حالت میں نظم و ضبطِ کے ساتھ اپنی زندگی بسر کریں۔اتباعِ سنت کا دوسرا پہلو اس کی معاشرتی اہمیت و افادیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسولﷺ کی سنت کی پیروی سب سے بڑھ کر معاشرے کی تشکیل و تعمیر کرتی ہے۔ یہ معاشرے کو باہم مربوط اور مستحکم بناتی ہے اور ایسی باہمی منافرتوں کا سدباب کرتی ہے جو مغربی معاشرے میں ’معاشرتی سوالات و اعتراضات‘ کے نام پر پیدا کی گئیں، اوراب وہ ہمارے معاشرے میں بھی در آئی ہیں سنت کی تعلیمات سے لاعلمی کے نتیجے میں ہم شبہات میں پڑجاتے ہیں، اور لوگ توہین رسالت تک پہنچ جاتے ہیں۔ لہذا سنت پر عمل کے معاملے میں یکسوئی ضروری ہے، زندگی اس طرح گزاریں جیسی نبی کریم اور صحابہ کرام نے گزاری، ہم جو کچھ بھی کریں، ہمیں ہمیشہ یہ خیال رہنا چاہیے کہ اس معاملے میں نبی کریمﷺ کا عمل کیا تھا یا انھوں نے اس بارے میں کیا فرمایا۔ یوں بنی نوع انسان کی عظیم ترین شخصیت ہماری روزمرہ زندگی کے معمول میں رچ بس جانی چاہیے،اور آپ کو خاتم النبیین تسلیم کرتے ہوئے زندگی کے معاملات چلانے ہیں ، آپ باپ کی حیثیت سے کیسے تھے ، آپ شوہر کے طور پر کیسے تھے ،آپ حکمران کے طور پر کیسے تھے ،تاجر کے طور پر کیسے تھے عفوو درگذر کا معاملہ کیسا تھا معاشرتی مساوات کے معاملے میں کیسے تھے، جنگ کے قوانین پر کیسے عمل پیرا ہوتے تھے، غرض جب تک ہم اپنے تمام معاملات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم نہ بنائیں وقت تک ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ آج کے دن اپنے نبی سے محبت کے اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ ہم عام آدمی ہیں تو اپنے گھر والوں اہل محلہ اور معاشرے کے لوگوں کے ساتھ معاملہ سنت کے مطابق رکھیں اور اگر ہم حکمران ہیں تو ہمیں تمام فیصلے سنت کے مطابق کرنے چاہئیں۔ آج اس بات کا جائزہ ہم سب کو لینا چاہیے کہ ہم قمقمے لگا کر جلوس نکال کر نعرے لگاکر نبی سے محبت کا ثبوت دیتے ہیں یا عمل سے ، اگر ہم محض رسمی کارروائی کرتے ہیں تو روز محشر اپنے ہی خلاف شافع محشر کی ایف آئی آر اور شکایت کا سامنا کرنے کو تیار رہیں، جب وہ اللہ سے شکوہ کریں گے کہ ان لوگوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ اگرچہ ہم میں سے کوئی اس صورتحال کاسامنا نہیں کرسکتا لیکن ہم جتنے بااختیاراور جتنے طاقتور ہیں اتنا ہی زیادہ غفلت میں ہیں، اللہ کو اور رسول کو زندگی سنت کے مطابق بنانا اور گزارنا مطلوب ہے نہ کہ اس محبت کا شور کرنا۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ زندگی کیسے گزاریں۔