سانحہ بلدیہ کی 12ویں برسی پر یادگاری اجتماع

123

سانحہ بلدیہ کی بارہویں برسی کے موقع پر سانحہ میں شہید ہونے والے 260 مزدور کے لواحقین اور مزدوروں کی بڑی تعداد میں متاثرہ فیکٹری کے سامنے یادگاری اجتماع میں شہداء کو زبردست خارج عقیدت پیش کیا۔ اس اجتماع کا انعقاد ہر سال کی طرح نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن (NTUF) علی انٹرپرازز فیکٹری فائر ایفیکٹیز ایسوسی ایشن اور ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان (HBWWF) نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ اجتماع بزرگ مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجتماع میں لواحقین نے جاں بحق ہونے والوں اپنے پیاروں کی تصاویر کے سامنے دیے بھی روشن کیے۔ اجتماع سے خطاب کرتے ہویے ناصر منصور، جنرل سیکرٹری نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن پاکستان نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بھیانک سانحہ کے بارہ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کارخانوںمیں مزدوروں کی زندگیاں محفوظ نہیں ، آئے دن کے صنعتی حادثات ثابت کر رہے ہیں حکومت ، مالکان اور بین الاقوامی برانڈز کو ورکرز کی زندگیوں سے زیادہ منافع سے غرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی انٹرپراز سانحہ کے ذمہ دار جرمن برانڈ ’’کے آئی کے‘‘ نے مزدور شہداء کے لواحقین کے مطالبہ کے باوجود آج تک نہ تو معافی مانگی اور نہ ہی اپنے کئے پر معذرت کا اظہار کیا۔ اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بدترین سانحہ سے سبق سیکھنے کی بجائے بین الاقوامی برانڈز خصوصا جرمن برانڈ آج بھی جن فیکٹریوں سے سے ملبوسات تیار کروا رہے ہیں وہاں کام کرنے والے لاکھوں مزدور علی انٹرپرازز جیسے غیر انسانی ماحول میں کام پر مجبور ہیں۔ ناصر منصور نے مزید کہا کہ لواحقین اور مزدور نمائندوں کی طویل جدوجہد کے نتیجے میں ایک معاہدے کے تحت جرمن برانڈ کی جانب سے لواحقین کے لیے ’’لانگ ٹرم کمپنشیسن‘‘ میں دیے جانے والے چھ ملین امریکی ڈالرز کی خطیر رقم کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) نے متاثرین اور مزدور کو اعتماد میں لیے بغیر کسی انشورنس کمپنی میں انویسمنٹ کر دی ہے جو جمہوری اور شفافیت کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انشورنس کمپنی سے کیے جانے والے معاہدے میں نہ تو لواحقین سے اور نہ ہی فریق مزدور تنظیموں کوئی مشاورت کی گئی۔

معروف رہنما حبیب الدین جنیدی نے کہا کہ پاکستان کے حکمران زرمبادلہ کے حصول کے لیے ایکسپورٹ بڑھانے کے نت نئے منصوبے اور بلند و بانگ دعویٰ ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے مرکزی کردار یعنی مزدوروں کے حالات کار اور اوقات کار میں بہتری لانے سے مسلسل انحراف کر رہے ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ فیکٹریوں، کارخانوں میں ملکی لیبر قوانین اور بین الاقوامی لیبر معیارات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

علی انٹرپرازز فیکٹری فائر ایفیکٹیز ایسوسی ایشن کی چیئرپرسن حسنہ خاتون نے حکومت سندھ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا کہ متاثرین کے قانونی ڈیوز بشمول گروپ انشورنس اور گریجویٹی کی ادائیگی کے بغیر مالکان کو متاثرہ فیکٹری کی عمارت گرانے کی اجازت دی گئی۔ لواحقین کا مطالبہ تھا کہ اس متاثرہ فیکٹری کو مسمار کرنے کے بجائے مزدور شہداء کی یاد میں مزدور ٹریننگ سینٹر قائم کیا جائے۔ کامریڈ زہرا خان، جنرل سیکرٹری ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن پاکستان نے کہا کہ بلدیہ سانحہ کے متاثرین اور مزدور تنظیموں کی جدوجہد کے نتیجے میں جہاں لواحقین کو معاوضہ کی ادائیگی ہوئی وہیں اس سانحہ نے برانڈز کو لیبر اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پابند بنانے کے لیے جرمنی اور یورپی پارلیمنٹ میں ہونے والی قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسی مزدور جدوجہد کے نتیجے میں کارخانوں میں مزدوروں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ’’پاکستان اکارڈ‘‘ کے تحت پانچ سو سے زائد فیکٹریوں کے 5 لاکھ مزدوروں کو صحت و سلامتی فراہم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ نے کہا کہ پاکستان انسانی حقوق بشمول مزدور حقوق کی پامالی کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ یونین سازی کا آئینی حق متروک ہو گیا ہے۔ ملک میں جمہوری آزادیوں اور فیکٹریوں کی فضا کو مزدور بنانے کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ لائحہ عمل پر جدوجہد وقت کی ضرورت ہے۔ اجتماع میں خطاب کرنے والوں میں کامریڈ گل رحمان، ریاض عباسی، حیدر عباس، عاقب حسین ، محمد صدیق، کامریڈ زدران، کامریڈ جنت، رمضان میمن، رزاق میمن، بچل سمیجو، ذوالفقار میر ، عظیم احمد و دیگر شامل تھے۔

اجتماع میں مطالبہ کیا گیا کہ :
٭کارخانوں کو محفوظ بنانے کے لیے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
٭جرمن برانڈ ’’کے آئی کے‘‘ 260 شہداء کے لواحقین سے معافی مانگے۔
٭بین الاقوامی برانڈز بشمول جرمن برانڈ جن فیکٹریوں سے ملبوسات تیار کروا رہے ہیں وہاں لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکے۔
٭آئی ایل او نے لواحقین اور مزدور نمائندوں کی مشاورت کے بغیر انشورنس کمپنی سے جو معاہدے کیا ہے اسے پبلک کیا جائے اور اوور سائٹ کمیٹی کو بحال کیا ہے۔
٭غیر قانونی ٹھیکہ داری نظام کو ختم کیا جائے۔
٭لیبر قوانین کے مطابق مستقل نوعیت کے کام کے لیے مستقل ورکرز رکھے جائیں۔
٭تمام ملازمین کو تحریری تقررنامہ دیے جائیں اور اجرتیں ورکرز کے ذاتی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے ادا کی جائیں۔
٭مزدوروں کی مشاورت کے بغیر حکومت سندھ اور آئی ایل او کے پیش کردہ مزدور دشمن ’’سندھ لیبر کوڈ‘‘ کو فی الفور واپس لیا جائے۔ اور اس کے تیار کرنے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے۔
٭حکومت سندھ کم از کم اجرت کے سرکاری نوٹیفکیشن کا اعلان کرے۔
٭تمام ورکرز کو سوشل سیکورٹی اور پنشن کے اداروں سے رجسٹرڈ کیا جائے۔ یونین سازی اور اجتماعی سودا کاری کے قانونی حق کو تسلیم کیا جائے۔ پبلک اداروں کی نجکاری کا عمل روکا جائے۔