امین گنڈا پورکی زبان پی ٹی آئی کی پہچان

398

پاکستانی سیاست میں زبان کا استعمال ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے، لیکن حالیہ دہائیوں میں غیر مہذب زبان کا چلن بڑھتا جا رہا ہے، خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان ماضی میں جو زبان اپنے جلسوں میں اختیار کرتے رہے ہیں ان ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، امین گنڈا پور نے اپنے جلسے میں جو زبان و لب و لہجہ اختیار کیا ہے، وہ نہ صرف غیر مہذب ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے، عمران خان نے جب سیاست میں قدم رکھا تو انہوں نے اپنی تقریر میں ایک نیا انداز متعارف کروایا، ان کی تقاریر میں اکثر اوقات سخت زبان استعمال کی جاتی تھی، جو عوام کو فوری طور پر متاثر کرتی تھی، عمران خان نے اپنے جوش خطابت میں مخالفین کو ’’چور‘‘، ’’ڈاکو‘‘، ’’لٹیرا‘‘ اور دیگر سخت الفاظ سے نوازا، یہ الفاظ نہ صرف ان کے سیاسی حریفوں پر تنقید کے طور پر استعمال ہوئے، اور رفتہ رفتہ غیر مہذب زبان اس جماعت کی ایک پہچان بن گئی، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا ایک ایسا کارکن جس کے اوپر متعدد مقدمات چل رہے ہوں اور وہ وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھال لے اور اپنے جامہ سے باہر نہ آئے، بزرگوں کی کہاوت ہے جیسی مائی ویسی جائی یعنی جیسی ماں ویسی بیٹی، ہم یوں کہ لیتے ہیں جیسا لیڈر ویسا کارکن۔

عمران خان نے اپنے جلسوں میں ہمیشہ بازاری زبان کا استعمال کیا، جس میں مخالفین پر سخت تنقید اور غیر مہذب زبان کا استعمال شامل تھا۔ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں نے بھی اس انداز کو اپنانا شروع کر دیا، اور امین گنڈا پور کی تقریریں عمران خان کے اس جارحانہ طرزِ سیاست کی عکاسی کرتی ہے، اپنی تقریر میں انہوں نے مخالفین کے خلاف نہایت سخت اور غیر شائستہ زبان استعمال کی، امین گنڈا پور نے اپنے زور بیان میں اپنے لیڈر کو رہا کرانے کے لیے وفاقی حکومت کو دو ہفتہ کا نوٹس بھی دیا، اور یہ دھمکی بھی دی اگر ایسا نہیں ہوا تو کارکنان کے ساتھ اڈیالہ جیل پر چڑھائی کر کے بانی پی ٹی آئی کو رہا کرائیں گے، ملک کے دیگر اداروں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ اور فوج کو بھی آڑے ہاتوں لیا اور یہ یاد دہانی بھی کرائی کہ میں فوجی ہوں فوجی کا بھائی ہوں فوج میری ہے جس کا مقصد عمران خان کو خوش کرنا اور پارٹی کے اندر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا، عمران خان کو خوش کرنے کے لیے امین گنڈا پور کا غیر مہذب زبان کا استعمال ان کے لیے مہنگا ثابت ہوا، بلکہ اْن کی تقریر سے پارٹی کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا ہے، انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی خوشنودی اور توقعات پر پورا اترنے کی کوشش کی، لیکن اْن کے اس لب و لہجے سے ان کی سیاسی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا۔

یہ واقعہ پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے کہ سیاست میں کامیابی کے لیے اخلاقی حدود کا پاس رکھنا بھی ضروری ہے، ورنہ عوامی اعتماد اور سیاسی ساکھ دونوں خطرے میں پڑ سکتے ہیں، مگر یہ بات بانی پی ٹی آئی کو کون سمجھائے کہ سیاست میں کامیابی کے لیے صرف جارحیت یا بد زبانی کافی نہیں ہوتی، بلکہ اخلاقی اقدار اور تعمیری گفتگو بھی ضروری ہوتی ہے، سیاسی بیانات میں غیر شائستہ زبان کا استعمال نہ صرف سیاست دانوں کی شخصیت کو مجروح کرتا ہے بلکہ اس سے ملکی سیاست میں مزید انتشار پیدا ہوتا ہے، ایسے بیانات سے عوامی سطح پر سیاست دانوں کے کردار پر سوال اٹھتے ہیں اور عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔

ویسے تو پاکستان کی سیاست میں مخالفین کے خلاف الزام تراشی اور غیر مہذب زبان کا استعمال کوئی نئی بات نہیں ہے، پی ٹی آئی کے سابقہ ادوار میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس قسم کی زبان فواد چودہری، فیاض الحسن چوہان، مراد سعید، شیخ رشید، یا شہریار خان آفریدی، ہوں ان سب کا لب و لہجہ امین گنڈا پور سے کم نہیں تھا، شیر افضل مروت کو بھی پارٹی کا عہدہ اس لیے ملا کہ ان کی زبان بھی کچھ کم نہ تھی، یہی اس جماعت کی روایت ہے کہ جو جتنا بڑا لْچر اور بد زبان ہو گا وہ اْتنے بڑے منصب کا حقدار ہو گا، جس کا دور رس اثر ملکی سیاست پر پڑتا ہے، اس سے نہ صرف سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہوتا ہے بلکہ عوامی شعور بھی متاثر ہوتا ہے۔

ایسے بیانات سے سیاست دانوں کی ساکھ کمزور ہوتی ہے اور عوام کے مسائل کے حل کے بجائے ذاتیات پر مبنی سیاست کو فروغ ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تقریر کے فوراً بعد، سوشل میڈیا، پرنٹ میڈیا، مختلف سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں، صحافی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا، انہوں نے اس تقریر کو غیر مہذب اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا اور امین گنڈا پور سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا، سوشل میڈیا پر بھی عوام نے اپنی ناراضی کا اظہار کیا اور سیاست دانوں سے بہتر زبان استعمال کرنے کی اپیل کی ہے،

آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ امین گنڈا پور کی تقریر اور عمران خان کا انداز بیان دونوں ہی پاکستانی سیاست میں باعث ندامت ہیں، ان کے اس انداز بیاں نے ملکی سیاست کو ایک ایسے راستے پر گامزن کر دیا ہے جہاں ذاتیات پر مبنی حملے اور غیر شائستہ زبان کا استعمال عام ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست میں روایتی اخلاقیات اور تعمیری گفتگو کی جگہ نفرت، تعصب اور تنازعات نے لے لی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست دان اپنے طرز بیان میں تبدیلی لائیں اور عوامی مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کریں تاکہ ملک میں ایک بہتر اور پرامن سیاسی ماحول قائم ہو سکے۔