ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور حکومت کا رویہ

238

دنیا میں قوموں کیلے غیرت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر ملک مسلمانوں کا ہو تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان قوم غیرت کی خاطر جان بھی دے دیتی ہے ، لیکن ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں مسلسل ایسے حکمران برسراقتدار رہے جو اس چیز سے قطعی ناواقف ہیں جسے مسلمان غیرت کہتے ہیں، بیٹیاں گھروں میں عزت ووقار کہلاتی ہیں اور ہمارے حکمران جنرل پرویز مشرف نے قوم کی باوقار بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بیچ دیا اس کے بعد سے مسلسل ایسے ہی حکمران اقتدار میں آرہے ہیں جو قومی غیرت کا مطلب سمجھنے سے عاری ہیں یا اس نعمت ہی سے عاری ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی جس کے فیصلے کے بعد بھی حکومت نے کوئی فوری قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ تین ہفتے کا وقت مانگا ہے اور اس کام کو وزیر اعظم کے دورے سے مشروط کردیا ہے اور کہا ہے کہ وفاقی حکو مت نے امریکا میں قید پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کے لیے امریکا میں الگ سے درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا اور وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے دورہ اقوام متحدہ کے موقع پر امریکی حکام کے سامنے بھی یہ معاملہ اٹھایا جائے گا۔ ہائی کورٹ نے اپنے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان عدالت میں پیش ہوئے اور یقین دہانی کروائی کہ وفاقی حکومت کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ہمدردانہ بنیادوں پر رہائی کی اپیل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ یہاں سوال اعتراض کا نہیں تھا بلکہ عافیہ کی رہائی کے لیے خط لکھنے کا تھا۔ حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا حکومت کے پاس کوئی وجہ نہیں کہ وہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے وکیل کی جانب سے تیار کی گئی ہمدردانہ بنیادوں پر رہائی کی اپیل کے ساتھ نہ کھڑی ہو۔ تو اتنے دن سے ان کی امدورفت کیا ایسی کوئی وجہ تلاش کرنے کیلیے تھی ؟ عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق حکومت الگ سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے رحم کی اپیل دائر کرے گی،حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق امریکا سے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بھرپور کام ہو رہا ہے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے حوالے سے 3 ہفتے کا وقت درکار ہے۔عدالت نے ہدایت کی ہے کہ کیس 18 اکتوبر 2024 کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں کس حد تک مخلص ہے۔ڈاکٹر عافیہ کا معاملہ کسی عدالتی پٹیشن یا عدالتی حکم کا نہیں سیدھا سادا قومی غیرت کا تھا جسے ہمارے حکمرانوں نے بے انتہا طول دیا۔ معلوم نہیں 18 اکتوبر تک عدلیہ کے ساتھ کیا کچھ ہوچکا ہوگا۔