سندھ حکومت اور سیاسی جماعتوں کی وجہ سے کراچی مالی وسائل سے محروم ہے

147

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) سندھ حکومت، سیاسی جماعتوں کی وجہ سے کراچی مالی وسائل سے محروم ہے‘ شہر قائد کو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سمجھ کر لوٹا گیا‘ آبادی کے لحاظ سے فنڈ نہیں ملتے، منصوبے کاغذی کارروائی کی نذر ہو تے ہیں، رقم جیب میں چلی جاتی ہے‘ سیاسی جماعتوں نے کراچی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا‘ صرف جماعت اسلامی مخلصانہ جدوجہد کر رہی ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر الطاف اے غفار، آل کراچی تاجر اتحاد کے صدر عتیق میر، کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر معروف ماہر معاشیات محمد فاروق افضل، فیڈرل بی ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹریز کے صدر سید رضا حسین اور صدر کوآپریٹو مارکیٹ لمیٹڈ کے صدر شیخ محمد فیروز نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’پورے ملک کو پالنے والا کراچی مالی وسائل سے کیوںمحروم ہے؟‘‘ الطاف اے غفار نے کہا کہ کراچی قومی و صوبائی معیشت میں ریونیو کے لحاظ سے اپنی تمام تر شراکت کے باوجوداپنے جائز حق سے محرومہے‘ یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر قومی خزانے میں 65 فیصد ریونیو اور95 فیصد صوبائی خزانے میں حصہ ڈالتا ہے ‘ اس شہر کو بروقت ملنے والی صرف ایک چیز محض لفظی تسلیاں ہیں‘ کراچی بھی پاکستان کا حصہ ہے جو پورے ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس لیے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی جانب سے اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘ زیادہ سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کے باوجود کراچی کو بنیادی سہولیات سے محروم رکھ کر سزا دی جا رہی ہے‘ کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے‘ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہنے کے بعد مایوس مسافر عموماً ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے لگتے ہیں‘ کراچی کے شہری سڑکوں پر آئے روز اپنے آپ کو ذہنی اذیت میں مبتلا پاتے ہیں جہاں حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ اکثر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ اور سیوریج لائنوں سے بہاؤ کی وجہ سے چلنے پھرنے یا گاڑی چلانے کے قابل بھی نہیں رہیں۔ الطاف اے غفار نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور میئر کراچی مرتضیٰ وہاب سے اپیل کی ہے کہ وہ کراچی کی خستہ حال سڑکوں کے انفرااسٹرکچر کو فوری طور پر بہتر کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کریں‘ جوڑیا بازار، ماڑی پور، کیماڑی، بولٹن مارکیٹ، لی مارکیٹ، ٹاور، لیاری، ایم اے جناح روڈ، آرام باغ اور دیگر قریبی علاقوں بلکہ شہر بھر میں سڑکیں تباہ ہیں۔ عتیق میر نے کہا کہ کوئی بھی شہر اپنے حق کے لیے ان لوگوں پر اعتماد کرتا ہے جو اسے اپنا سمجھتے ہیں اسے اون کرتے ہیں جس میں سب سے پہلے وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو شہر کو اون کرتی ہے‘ کراچی شہر کا المیہ یہ ہے کہ ہر کسی نے اسے سونے کا انڈا دینے والی مرغی یا ایک سونے کی چڑیا سمجھا اور بجائے اس کے کہ اس کو حق دلاتے اس کو دانا دھنکا کھلاتے اس چڑیا کے پر نوچنا شروع کر دیے اور کراچی کو کوئی مخلص لیڈر نہیں مل سکا‘ کوئی مخلص جماعت نہیں مل سکی‘ اپنے مخالف اداروں پر دباؤ کے لییکراچی کے عوام اور تاجروں کو استعمال کیا گیا لیکن جب مخالف ادارے دباؤ میں آئے تو ان کے بینیفٹس خود وصول کیے گئے عوام کو کچھ نہ دیا گیا اور شہریوں اور تاجروں میں اتنی یکجہتی اور اتنا اتحاد پیدا نہیں ہو سکا کہ اپنے حق کے لیے باہر نکلتے‘ سیاسی جماعتی بھی سوچتی ہیں کہ ہمیں اپنا حصہ کراچی کے نام پر مل جاتا ہے تو شہرکے لیے کام کیوں کریں اور وفاق جب بھی فنڈ کراچی کے نام پر دیتا ہے تو کبھی اس کا حساب نہیں لیتا‘ عوام کو کے الیکٹرک اور واٹر ٹینکرز مافیا کے حوالے اس طرح کیا گیا جسے لاوارث بچہ بردہ فروش کو بیچتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں یہ کراچی کے ساتھ بڑا ظلم ہے‘ یہ بڑی بدقسمتی ہے لیکن ساتھ ہی اہلیان کراچی بھی اس کے ذمہ دار ہیں جو اپنے حق کے لیے آواز نہیں اٹھاتے‘ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو کراچی کے لیے مخلصانہ کوششیں کر رہی ہے۔محمد فاروق افضل نے کہا کہ کراچی کو بد قسمتی سے بالکل یتیم کر دیا گیا ہے‘ کراچی جو کہ 68 فیصد ملک کا ٹوٹل ریونیو جنریٹ کرتا ہے اور کراچی جہاں سے پاکستان کی ٹوٹل ایکسپورٹ 54 فیصد ہوتی ہے اور 52 فیصد ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ کراچی سے ہوتی ہے‘ اتنے ٹیکسز دینے کے باوجود کراچی کو وہ جو اس کا حق ہے وہ نہیں دیا جا رہا‘ سڑکوں کے انفرااسٹرکچر، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، اسپتالوں میں طبی سہولیات اور سیکورٹی کا حال دیکھ کر رونا آتا ہے‘ کراچی کی اونرشپ کوئی لینے کو تیار نہیں ہے اس کو کھانے کے لیے سب تیار ہیں ‘ ہر بندے نے کراچی کو ایک کھانے کی پلیٹ سمجھا ہوا ہے وہ آتا ہے اپنا کھانا کھاتا ہے اور چلا جاتا ہے‘ کماؤ پوت شہر ہونے کے باوجود کراچی میٹرو پولیٹن سٹی والی سہولیات سے محروم ہے‘افریقا کے مختلف شہروں میں کمرشل حب ہیں‘ کراچی کا حال دیکھ کرشرم آتی ہے‘ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبوں کو پیسے ملتے ہیں‘ کراچی کو آبادی کی مناسبت سے رقم 700 ارب ملنی چاہیے‘ میئر کراچی کہتے ہیں، ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اور ٹیکس لگانے پڑیں گے‘ میرا سوال یہ ہے کہ ہر سال این ایف سی ایوارڈکی مد میں جو اربوں روپے ملتے ہیں وہ کہاں جا رہے ہیں‘ آپ ہمیں تو کوئی حساب دینے کو تیار نہیں ہیں‘ عدم سہولیات کی فراہمی کے باعث شہری نفسیاتی مریض ہو چکے ہیں‘ کاغذوں کے اوپر سارے پروجیکٹس ہوتے ہیں وہ بار بار، تین تین دفعہ، چھ چھ دفعہ بنتے ہیں وہ پیسے جیب میں چلے جاتے ہیں ،عملی کوئی کام نہیں ہو رہا‘ بلدیاتی ، صوبائی اور وفاقی حکومت اور اداروں کو عوام کی فلاح وبہبود کا کوئی خیال نہیں‘ نیو کراچی، نارتھ کراچی، سرجانی ٹاؤن، سہراب گوٹھ، ناظم آباد اور دیگر علاقوں کا انفرااسٹرکچر دیکھیں ان علاقوں کے لیے مختص فنڈ کہاں جا رہے ہیں۔ سید رضا حسین نے کہا کہ کسی بھی شہر میں انفرااسٹرکچر اور یوٹیلیٹی کی سہولیات پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے‘ بدقسمتی سے کراچی کے لیے ایسا نہیں ہو رہا ہے‘ حکومت شہر کی حقیقی صلاحیتوں کو نظر انداز کر رہی ہے، ماضی میں مختلف حکومتوں نے کراچی کے لیے معاشی منصوبوں کا اعلان کیا لیکن شہر کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی گئی‘ میرا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے کراچی میں سرمایہ کاری کرے تاکہ مزید ریونیو حاصل کیا جا سکے۔شیخ محمد فیروز نے کہا کہ سندھ گورنمنٹ کی نااہلی ہے‘ سندھ حکومت جب چاہے اپنے وسائل وفاقی حکومت سے لے سکتی ہے کیونکہ وقتاً فوقتاً وفاق کو بلیک میل کرتی رہتی ہے‘ وسائل کو لے کر آپس میں بندر باٹ کرتی ہے تو لہٰذا کراچی کے اوپر وہ پیسہ لگتا ہی نہیں ہے‘ شہر کی سڑکوں، ٹرانسپورٹ کی حالت خراب ہے‘ بلدیاتی ادارے اور صوبائی محکمے اپنا کام درست طرح کرنے سے قاصر ہیں‘ کے الیکڑک نے لوٹ مار مچا رکھی ہے۔