بنگلا دیش میں قائدِاعظم، پاکستان اور اردو کو نئی زندگی مل گئی

244

ڈھاکا: بنگلا دیش میں عوامی لیگ کے پندرہ سالہ اقتدار کے خاتمے پر ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جس کے حوالے سے بھارت بہت پریشان ہے۔ بھارتی قیادت کو بنگلا دیش میں سوچ کی تبدیلی سے شدید الجھن محسوس ہو رہی ہے۔ بھارت قیادت اور میڈیا کے پیٹ کے مروڑ اب خصوصی رپورٹس کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا نے بنگلا دیش کے بارے میں جی بھرکے پروپیگنڈا کرنے کی ٹھان لی ہے اور اس حوالے سے بنگلا دیش اور بنگلا دیشیوں کے خلاف محاذ کھول لیا ہے۔

بھارتی قیادت کو اس بات سے بہت دکھ پہنچا ہے کہ بنگلا دیش کے عوام اب بھارت کا بغل بچہ بن کر رہنے کے لیے تیار نہیں۔ عوامی لیگ نے بھارت کی مدد سے سابق مشرقی پاکستان کو بنگلا دیش میں تبدیل کیا تھا اور لیے جب جب اُسے اقتدار ملا ہے اُس نے بھارت کے احسانات کا بدلہ چکانے کی بھرپور کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بنگلا دیش کو بھارت کا دستِ نگر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بنگلا دیش میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ ایک بڑی اور نمایاں تبدیلی یہ ہے کہ بھارت کی طرف جھکے رہنے کی پالیسی ترک کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔ بنگلا دیش کے پالیسی میکرز ملک کو محض بھارت کا بغل بچہ بنائے رکھنے پر اسلامی دنیا سے تعلقات بحال کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اسٹریٹجک ڈیپتھ پیدا کرنے کے لیے پاکستان سے تعلقات کو نئی زندگی عطا کرنے پر بھی توجہ دی جارہی ہے۔ بھارتی قیادت کو یہ خوف لاحق ہے کہ اگر بنگلا دیش میں نئی منتخب حکومت نے بھارت کو ثانوی حیثیت دینے کا سوچ لیا تو کیا ہوگا۔

بھارت کے بڑے میڈیا آؤٹ لیٹ انڈیا ٹوڈے نے خصوصی رپورٹ میں اس بات کا رونا رویا جارہا ہے کہ طلبہ تحریک کے نتیجے میں عوامی لیگ کا اقتدار ختم کرنے کے بعد قائم کی جانے والی عبوری حکومت نے اردو اور محمد علی جناح کو گلے لگانا شروع کردیا ہے۔ بنگلا دیش میں اردو سے نفرت نمایاں رہی ہے مگر اب ایسا نہیں ہے۔

انڈیا ٹوڈے نے اپنی خصوصی، “دُکھ بھری” رپورٹ میں اس بات پر شدید افسوس کا اظہار کیا ہے کہ بنگلا دیش کے طول و عرض میں اردو، جناح اور پاکستان کے لیے غیر معمولی حد تک نرم گوشے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ اس کا ایک نمایاں ثبوت یہ ہے کہ اس بار محمد علی جناح کی برسی کے موقع پر ڈھاکا کے نیشنل پریس کلب میں خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں اردو گیت بھی پیش کیے گئے، اردو کی نظمیں بھی پڑھی گئی ہیں اور مقررین نے کُھل کر یہ بات کہی کہ جناح نہ ہوتے تو بنگلا دیش بھی نہ ہوتا۔ اُن کا استدلال یہ تھا کہ محمد علی جناح نے موجودہ پاکستان اور مشرقی بنگال کو بھارت سے الگ کرکے منفرد شناخت دی۔ مشرقی بنگال مشرقی پاکستان میں تبدیل ہوا۔ بعد میں وہ بنگلا دیش بنا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ جناح نہ ہوتے تو 1947 میں مشرقی بنگال کے مسلمان پاکستان کا حصہ نہ بن پاتے اور اب تک بھارت ہی کا حصہ ہوتے۔

بھارتی میڈیا یہ رونا بھی رو رہے ہیں کہ طلبہ تحریک کو بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی اور جماعتِ اسلامی بنگلا دیش نے ہائی جیک کرلیا اور اب وہ بنگلا دیش کی لسانی اور ثقافتی شناخت بدلنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ میں اس بات پر بھی رونا رویا گیا ہے کہ اردو، جناح اور پاکستان آج بھی بنگلا دیشیوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں اور موقع ملتے ہی ابھر آتے ہیں۔

روزنامہ ڈھاکا ٹربیون نے لکھا ہے کہ 11 ستمبر 2024 کو نیشنل پریس کلب ڈھاکا کے تفضل حسین مانیک میاں ہال میں تقریب کا اہتمام نواب سلیم اللہ اکیڈمی نے کیا تھا۔ اس تقریب میں مقررین نے یہ نکتہ خاص طور پر بیان کیا کہ محمد علی جناح کی کاوشوں سے پاکستان ممکن ہوسکا اور اگر پاکستان ممکن نہ ہوا ہوتا تو بنگلا دیش بھی ممکن نہ ہو پاتا۔ توقع کی جارہی تھی کہ اس تقریب کے مہمانِ خصوصی پاکستان کے ہائی کمشنر ہوں گے مگر وہ نہ آسکے۔ ان کی جگہ ڈپٹی ہائی کمشنر کامران دھنگل نے تقریب میں شرکت کی۔

انڈیا ٹوڈے نے اردو، پاکستان اور محمد علی جناح کی مقبولیت میں راتوں رات ہونے والے اضافے پر واویلا کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بنگلا دیش میں رہنے والوں نے اپنی تاریخ کو بھلادیا ہے، وہ یہ بھی بھول گئے ہیں کہ مغربی پاکستان نے اردو کی بالا دستی قائم کرنے اور بنگالی زبان کو دبوچ کر رکھنے کے لیے ان گنت مظالم ڈھائے تھے۔

انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ میں یہ رونا بھی رویا گیا ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے دوران لاکھوں افراد کو قتل کیا گیا، لاکھوں عورتوں کی عزت پامال کی گئی مگر بنگلا دیشیوں نے سب کچھ بھلادیا ہے۔ بنگلا یعنی بنگالی زبان کو پاکستان کی سرکاری زبان تسلیم کروانے کی تحریک یاد دلاتے ہوئے انڈیا ٹوڈے نے لکھا ہے کہ بنگالیوں کو بھولنا نہیں چاہیے کہ آج جنہیں دوبارہ عزت دی جارہی ہے اُنہوں نے ہی قتلِ عام کیا تھا۔

بدھ کو نیشنل پریس کلب ڈھاکا کی تقریب میں پروفیسر مستفیض الرحمٰن نے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی زندگی بھر کی کامیابیوں کے حوالے سے ایک اہم مقالہ پیش کیا۔ جعفرالحق جعفر نے قائدِاعظم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک نظم پیش کی۔ پاکستانی طلبہ محمد طاہر اور کامران عباس نے قائدِ اعظم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے گیت پیش کیے۔

نواب سلیم اللہ اکیڈمی کے در محمد عبدالجبار نے اس تقریب کی صدارت کی۔ ایک متنازع بیان میں محمد شمس الدین نے کہا کہ اگر پاکستان نہ ہوتا تو موجودہ بنگلا دیش جس علاقے میں ہے وہاں کے لوگوں کا بھی وہی حشر ہوا ہوتا جو مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کا ہوا ہے۔ اگر ہم پاکستان کا حصہ نہ بنے ہوتے تو آج ہماری گردنوں پر بھی بھارتی ہتھیار ہوتے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں علامہ اقبال ہال اور جناح ایونیو کے نام تبدیل کرنے کا فیصلہ اُس وقت کی حکومت نے نئی دہلی کو خوش کرنے کے لیے کیا تھا۔ یہ سب کچھ بنگالی عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کرتا تھا۔

نذرالاسلام نے اپنے خطاب میں کہا کہ محمد علی جناح ہمارے لیے بابائے قوم ہیں مگر ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ ہمیں پاکستان سے برادرانہ تعلقات استوار رکھنے چاہئیں۔