بنگلا دیش، عبوری دور طویل ہوگا

363

پہلا حصہ

بنگلا دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف طلبہ تحریک اور تیز رفتار تبدیلی سے یہ تو ظاہر ہورہا تھا کہ یہ محض طلبہ تحریک نہیں، بلکہ دوسرے کھلاڑی بھی میدان میں ہیں یا پس پردہ ہیں، حکومت ختم ہوگئی حسینہ واجد بھارت پہنچ گئیں، ان کے خلاف بھی وہی کچھ ہورہا ہے جو انہوں نے دوسروں کے ساتھ کیا۔ لیکن دیکھنا یہ تھا کہ اصل کھلاڑیوں کا اصل مقصد کیا ہے اور اب وہ رفتہ رفتہ سامنے آرہا ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ ڈاکٹر یونس کی سربراہی میں قائم عبوری حکومت عبوری نہیں لگتی۔ اس کے اقدامات اور بھارت کی چیخوں سے لگتا ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے، عالمی سطح پر جب ایسی تبدیلیاں آتی ہیں تو اس خطے کے ممالک اپنے مفادات کے مطابق صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو مزاحمت بھی کرتے ہیں، جیسا کہ افغانستان میں روس کے آنے پر پاکستان کو خطرات محسوس ہوئے تو پاکستان نے مزاحمت کی، اس کھیل میں بھی دیگر عالمی کھلاڑی پس پردہ بھی رہے اور سامنے بھی آئے۔ اس خیال کو کہ یہ عبوری حکومت نہیں ہے، اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ ڈاکٹر یونس طویل مدتی پالیسی فیصلے کررہے ہیں۔ بنگلا دیش کے اہم حلیف بدلے جارہے ہیں، نئے پارٹنرز تلاش کیے جارہے ہیں، اور ساتھ ہی حسینہ واجد، ان کی پارٹی اور اس کے ہم نوائوں بشمول بھارت کے گرد شکنجہ کسا جارہا ہے اسی لیے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے پر جتنی تکلیف عوامی لیگ اور اس کے حامیوں کو ہونی چاہیے تھی اس سے کہیں زیادہ تکلیف میں بھارتی حکومت اور بھارتی میڈیا ہے، ان کا بس نہیں چل رہا کہ اس واقعہ پر پاکستان پر حملہ کروادیں یا چین امریکا جنگ چھڑوادیں، سارا زور جماعت اسلامی اور پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف لگایا جارہا ہے، ایک الزام تو بڑا دلچسپ ہے کہ بنگلا دیشی فوج میں جماعت اسلامی گھس گئی ہے، بنگلا دیش میں سابق بھارتی ہائی کمشنر وینا سیکری نے دعویٰ کیا ہے کہ بنگلادیشی فوج میں جماعت اسلامی کا نفوذ ہے میجر گورا واریا کے پوڈکاسٹ میں وینا اس طرح شیخ حسینہ کی وکالت کررہی تھیں جیسی انہیں اپنے ملک کی کرنی چاہیے تھی، ویسے در حقیقت وہ یہی کر رہی تھیں، اگر شیخ حسینہ بنگلا دیش واپسی کا ارادہ رکھتی ہیں اور مستقبل میں انہیں اقتدار ملتا ہے تو وینا سیکری کا مستقبل روشن ہے۔ حسینہ واجد اگر بالفرض محال واپس آئیں تو وینا ان کی مشیروں میں سے ہوں گی۔ لیکن وینا ایک نہیں ہیں بھارت کے ٹی وی چینلوں، پرائیویٹ ویب ٹی وی اور پوڈکاسٹس میں بھارتی فوج کے ریٹائرڈ میجرز اور کرنل وغیرہ اور میجر جنرل بھی تجزیے کرتے نظر آتے ہیں۔ بنگلا دیش کے قیام اور اس کو اسلامی شناخت سے محروم رکھنے کی کوشش میں بنگلا دیشی قیادت سے زیادہ حصہ بھارت کا ہے، اسی لیے بھارت کو بنگلا دیشی حسینہ حکومت گرنے کی زیادہ تکلیف ہے اور طرح طرح کے تجزیے بھی اسی لیے ہورہے ہیں۔ یہ کہنا کہ طلبہ کی تحریک کو جماعت اسلامی نے ہائی جیک کرلیا اور تشدد کا رنگ غالب آگیا ہے دراصل بھارت کے خلاف سب سے مضبوط دفاعی لائن جماعت اسلامی کے خلاف مہم کا حصہ ہے، وینا نے تو کہہ دیا کہ اس تحریک کے اصل قائد طلبہ نہیں تھے، یہاں پہنچ کر وینا نے کہا کہ جماعت اسلامی کے لوگوں نے فوج میں نفوذ حاصل کیا اور فوجی کہنے لگے کہ ہم کسی بلوائی پر فائر نہیں کریں گے، اس سے جماعت اسلامی کا نفوذ کہاں ثابت ہوتا ہے؟ ہائی کمشنر کی سطح کی

خاتون کو ایسی بے پر کی اُڑاتے ہوئے کچھ سوچ لینا چاہیے تھا لیکن چونکہ انٹرویو بھارتی میجر کررہا تھا اور بھارت کی حمایت اور پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف تھا اس لیے یہ سوال نہیں ہوا کہ فوج میں تو حکم عدولی کی سخت سزا ہے، بنگلا دیشی آرمی چیف نے ایکشن کیوں نہیں لیا، بلکہ فوج کے اس منصوبے سے کسی قسم تعلق کو گول کرگئیں اور سارا الزام فوج میں موجود جماعت اسلامی والوں پر ڈال دیا جن کا وجود کہیں نہیں۔ یہ خبر تو بنگلا دیشی آرمی چیف کے لیے بریکنگ نیوز ہوگی۔ وہ تو یہ تک کہہ گئیں کہ 5 اگست کو حسینہ واجد کے جاتے ہی جماعت اسلامی اور چھاترو شبر سڑکوں پر نکل آئے اور لوٹ مار قتل و غارت شروع کردیا، اور فوج نے انہیں نہیں روکا، ملک بھر میں تمام عہدوں سے ہندوؤں کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا خواہ وہ بلدیہ کی سطح کا افسر بھی کیوں نہ ہو، یہاں سیکری جی چوک گئیں، ساری قتل و غارت 5 اگست سے پہلے ہوئی تھی ہلاکتوں کے بارے میں بھی جھوٹ بولتی ہیں کہ جب حسینہ واجد بیرون ملک سے آئیں تو ہلاکتوں کی تعداد 204 تھی اور وہ بار بار ہلاک ہونے والے طلبہ کی تعداد 53 کہ رہی تھیں اور ’’صرف 53‘‘ کی تکرار کررہی تھیں اس کے بعد رجا کار والے جملے کی وضاحت بھی وہ کر رہی تھیں جس کا اب حسینہ کو کوئی فائدہ نہیں، صرف بعد از مرگ ماتم کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اور میجر گوراواریا نے تمام ہلاکتوں کا الزام جماعت اسلامی اور اسلامی چھاترو شبر پر ڈال دیا، یہ نہیں بتایا کہ حسینہ اور ان کے وزیروں نے مکتی باہنی اور اپنی طلبہ تنظیم کو احتجاجی طلبہ کی طبیعت صاف کرنے کے لیے کھلی چھوٹ کیوں دی تھی۔

انٹرویو کے دوران میجر گورا واریا اور وینا سیکری نے پورا زور اس بات پر صرف کیا کہ شیخ حسینہ واجد نے بھی عمران خان کی طرح امریکا کو ایبسلوٹلی ناٹ کہہ دیا۔ دونوں کا اتفاق تھا کہ یہ بھی امریکی آشیرباد والا رجیم چینج تھا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ عمران خان نے بھی حکومت جانے کے بعد یہ شوشا چھوڑا تھا، اس امر پر بھی دونوں متفق تھے کہ بنگلا دیش میں بھارت مخالف جذبات کے پیچھے بھی پاکستان اور جماعت اسلامی تھے یہ نہیں بتایا کہ یہ جذبات 5 اگست کے بعد کیسے سامنے آئے؟ اس کے پیچھے بنگلا دیش کے قیام سے اب تک کے 53 برس کی بھارتی پالیسیاں اور خصوصاً شیخ حسینہ کے پندرہ سال کی حکومت کی پالیسیاں تھیں۔ ان بھارتی تجزیہ کاروں پر پاکستان چین اور امریکا کا بھوت اس بری طرح سوار ہے کہ ہذیانی کیفیت میں ہیں، ریٹائرڈ فوجی ہونے کے باوجود اس پر یقین رکھتے ہیں کہ دہشت گرد پاکستان سے بنگلا دیش آتے ہیں وہاں سے بھارتی شہریت کے کاغذات اور کارڈ حاصل کرکے بھارت میں بھی دہشت گردی کرتے ہیں اور پھر وہاں سے کشمیر میں جاکر دہشت گردی کرتے ہیں، اگر وہ اس پر یقین رکھتے ہیں تو پندرہ سال سے مضبوط شیخ حسینہ واجد حکومت اور بھارتی حکمران مودی شاید نشہ کرکے سورہے تھے کہ پاکستان سے بنگلا دیش اور وہاں سے کشمیر کا مشکل ترین راستہ یہ پاکستانی اختیار کرتے تھے۔ اسی طرح کے فلسفے پاکستانی سیکورٹی والے بھی دہشت گردی کی واردات کے بعد پیش کرتے ہیں، پورے بھارت میں یہ خوف پھیلا ہوا ہے کہ بنگلا دیش کی عدالتیں شیخ حسینہ کو خصوصی ٹریبونل میں مقدمات کے لیے طلب نہ کرلیں، پھر بھارت کیا کرے گا۔ دوسرا خوف اس کو یہ ہے کہ شیخ حسینہ کو اب وہی مقدمات اسی طرح بھگتنے ہوں گے جس طرح ان کے دور میں جماعت اسلامی پر چلائے گئے تھے۔
(جاری ہے)