ان دنوں جاپان کو آبادی کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے، جاپان میں شرح پیدائش میں مسلسل کمی اور بڑھتی ہوئی عمر کے افراد کا اضافہ ملک کئی شعبوں میں مشکلات کا سبب بن رہا ہے، جبکہ معاشی ترقی، سماجی بہبود، اور عوامی خدمات کی فراہمی جیسے اہم شعبوں پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ لیکن، سب سے زیادہ تشویش کا باعث جاپان کا دفاعی شعبہ بن رہا ہے، جو براہ راست ملک کی سیکورٹی اور خطے میں استحکام سے جڑا ہوا ہے۔ رائٹرز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، جاپان کی سیلف ڈیفنس فورسز (SDF) میں ہدف کے مقابلے میں نصف سے بھی کم نئی بھرتیاں ہو رہی ہیں۔ 31 مارچ 2024 تک کے مالی سال میں صرف 10ہزار کے قریب بحری، بری، اور فضائی اہلکار بھرتی کیے گئے، جو ملک کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
آبادی میں کمی کی وجہ سے جاپان کو فوجی افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ جاپانی وزارت دفاع کے مطابق، اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے جاپان کو جدید ٹیکنالوجی اور خودکار نظام اپنانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، چنانچہ دفاعی بجٹ میں 8.5 ٹریلین ین (59 ارب ڈالر) کے ریکارڈ سطح کے اضافے کی درخواست کی گئی ہے، جو دفاعی اخراجات میں تقریباً 6.9 فی صد اضافہ ہے۔ ان اخراجات میں مصنوعی ذہانت (AI)، بغیر پائلٹ کے ڈرونز، اور خودکار فضائی اور بحری جہاز شامل ہیں جو کم اہلکاروں کے باوجود زیادہ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ مزید برآں، وزارت دفاع نے اگلے سال کے لیے 18 بلین ین کی رقم بھی فوجی اڈوں کی سیکورٹی کے لیے AI نگرانی کے نظام کے لیے مختص کی ہے۔ 314 ارب ین کی لاگت سے تین فضائی اور بحری جہازوں کا آرڈر دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آبادی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے جاپان نے فوج میں خواتین کی بھرتی کو بھی فروغ دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو اس وقت سیلف ڈیفنس فورس (SDF) میں 10 فی صد سے بھی کم ہیں۔
جاپان چین کو خطے میں اپنا سب سے بڑا حریف تصور کرتا ہے، جو خطے میں اپنی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت اور اثر رسوخ کے لیے جانا جاتا ہے، چین یقینی طور پر جاپان کی ان دفاعی حکمت عملیوں کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ایک چیلنج کے طور پر دیکھ سکتا ہے، اور ممکنہ جوابی حکمت عملی کے طور پر فوجی طاقت کے مزید مظاہرے اور اپنے دفاعی اخراجات میں اضافے کے امکانات پر بھی غور کر سکتا ہے، جن میں جاپان کے دفاعی اقدامات کا جواب دینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی تیاری شامل ہو سکتی ہے۔ ویسے بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں کئی امور پر اختلاف کے علاوہ تاریخی تناظر میں تلخ تجربات کا ذائقہ غالب ہے۔ مزید برآں جاپانی دفاعی ماہرین اس بات پر بھی یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ چین مختلف متنازع ایشوز کی بنیاد پر فوجی طاقت کا اضافہ اور استعمال کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں حال ہی میں یہ خبر بھی سامنے آچکی ہے کہ پہلی بار چین کی جانب سے جاپان کی فضائی حدود میں ایک Y9 طیارے کی موجودگی پر جاپانی جہاز ایکشن میں آئے تھے لیکن یہ معاملہ کسی تصادم کے بغیر اختتام پزیر ہو گیا۔ اس کے علاوہ علاقے میں طاقت کے توازن کے حوالے سے چین کی ون چائنا پالیسی کے تحت اس کا تائیوان پر دعویٰ بھی جاپان کی دفاعی حکمت عملی کی روح سے متصادم ہے۔
جاپان امریکی تھنک ٹینکس کے اس ہائپو تھیسس سے بھی اتفاق کرتا ہے کہ چین کے 2029 میں تائیوان پر حملے کے امکانات بھی خاصے قوی ہیں۔ واضح رہے کہ 2029 چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے قیام کی 100 ویں سالگرہ کا سال ہے۔ اس ہائپو تھیسس کو امریکا ایک پی آر کیمپین کی صورت میں بہت مستعدی سے فروغ دے رہا ہے، جس کے نتیجے میں جاپان اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جاپان کے دفاعی تجزیہ نگاروں کی رائے میں جاپان کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت اور چین کی ممکنہ جوابی حکمت عملی کے درمیان ایک توازن قائم رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں کسی بھی قسم کے تصادم کی صورتحال کو روکا جا سکے۔
جاپانی بیانیے کے مطابق اس کے حالیہ اقدامات کے باوجود، اس کا مقصد اپنی دفاعی حکمت عملی کو جدید بنانا اور اپنے علاقے کا دفاع کرنا ہے، نہ کہ جنگ کو ہوا دینا، اور یہ حکمت عملی بین الاقوامی قوانین اور کثیر الجہت سفارت کاری کے اصولوں پر مبنی ہے۔ چین اور جاپان دونوں ایشیا کی بڑی معیشتیں ہیں، اور ان کے مفادات کا بڑا حصہ خطے کے امن اور استحکام سے وابستہ ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تصادم کسی بھی صورت میں خطے کے مفاد میں نہیں چنانچہ خطے کے تمام ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ سفارت کاری، مذاکرات، اور باہمی تعاون کے ذریعے اپنے اختلافات کو حل کریں۔ دفاعی ماہرین کی رائے کے مطابق تاحال جاپان کے اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جنگ کے بجائے دفاع کو ترجیح دے رہا ہے، ان ماہرین کی رائے کے مطابق جاپان کی یہ حکمت عملی نا صرف اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہے، بلکہ خطے میں امن اور ترقی کے ایک متوازن راستے کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے، جو عالمی امن اور سلامتی کے لیے اہم ہے۔ جاپان، چین کے ساتھ تجارت سمیت دیگر شعبہ جات میں بہتر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا سازگار ہو۔