دماغی ہجرت

265

ہمارے ملک کی دو تہائی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ ہماری حکومت ان نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور بہتر مستقبل نہیں دے رہی۔ لہٰذا وہ مایوس ہو کر بیرون ملک جانے کے لیے ہر حربہ آزمانے پر آمادہ ہیں۔ وہ اپنے بہتر مستقبل اور خوابوں کی تکمیل کے لیے یہی ایک راستہ اختیار کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ان برے حالات میں بھی اپنے ملک میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ 2024ء کے دوسرے مہینے میں ہونے والا ایک سروے میں جو معتبر ادارے (ملٹی نیشنل ادارے اپسوس) کی جانب سے کیا گیا تھا بتایا گیا کہ پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت خراب معاشی حالات کے باوجود ملک میں ہی رہنے کو ترجیح رہتی ہے اور بیرون ملک منتقل نہیں ہونا چاہتی۔

سروے میں اٹھارہ سے چونتیس برس کے نوجوانوں سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ وہ کیا بیرون ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں؟ ہر چار میں سے تین نوجوانوں نے جواب دیا کہ وہ بیرون ملک نہیں جانا چاہتے اور پاکستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔ سروے کے مطابق 77 فی صد نوجوان بیرون ملک نہیں جانا چاہتے۔ بقیہ 23 فی صد نوجوان کسی دوسرے ملک میں منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ بھی اہم بات ہے کہ سروے کے مطابق بیرون ملک منتقل ہونے کی خواہش 18 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں اور بہتر آمدنی والے افراد میں زیادہ ہے یعنی بہتر سے بہتر کی خواہش بہتر آمدنی والوں میں زیادہ ہے۔ یہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ سروے کے مطابق شہری علاقوں سے 29 فی صد اور دیہی علاقوں سے 18 فی صد نوجوان بیرون ملک منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ پنجاب سے نوجوان بیرون ملک جانا چاہتے ہیں اور سب سے کم بلوچستان سے باہر جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک عام تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت یورپ اور امریکا جانا چاہتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، باہر منتقل ہونے کی خواہش رکھنے والے نوجوانوں کی اکثریت یورپ اور امریکا نہیں بلکہ سعودی عرب جانا چاہتی ہے اور دوسری ترجیح نوجوانوں کی کینیڈا ہے۔ تیسری آسٹریلیا، چوتھی ترکی، پانچویں اٹلی، چھٹی برطانیہ اور ساتویں امریکا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد میں بیرون ملک منتقل ہونے میں 2022ء کے مقابلے میں 2023ء میں 119 فی صد اضافہ ہوا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ کس تیزی سے ہنر مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت بیرون ملک منتقل ہورہی ہے اور اسی طرح ہوتا رہا تو چند ہی برسوں میں ملک میں قابل افراد کا کال پڑ جائے گا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ باہر روزگار کرنے والے نوجوان ملک میں سالانہ لاکھوں ڈالر بھیجتے ہیں جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جب تک ملک میں نوجوانوں کو جو کل آبادی کا دو تہائی ہیں مناسب روزگار اور ترقی کے مواقعے حاصل نہیں ہوں گے تب تک ہمارے اعلیٰ دماغوں کی بیرون ملک منتقلی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ اُسی صورت میں رُک سکتا ہے جب ملک میں حالات درست ہوں، سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہو، معیشت کا پہیہ چلے اور نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع حاصل ہوں۔ نوجوان ملک کے لیے کتنی اہمیت رکھتے ہیں اس کا اندازہ امریکا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس کے مطابق 2050ء تک امریکا میں 65 برس یا اس سے زیادہ عمر کی آبادی دگنی ہوجائے گی۔ ماہرین اس تعداد کو انتہائی تشویش ناک بتاتے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ آبادی امریکی معیشت کے لیے ایک بوجھ ثابت ہوگی۔ عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی سے امریکا کو مستقبل میں بہت سے چیلنجز درپیش ہوسکتے ہیں جن میں سوشل سیکورٹی اور میڈی کیئر سرفہرست ہیں۔ امریکا کے علاوہ جاپان، جرمنی اور اٹلی کو بھی عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے منسلک مسائل کا سامنا ہے۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی دو تہائی نوجوان بلکہ نوجوان افراد پر مشتمل ہے۔ جو ذہانت میں بھی کم نہیں۔ ضرورت اگر ہے تو معاشی حالات کی بہتری اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے بہتر مواقع کی۔ بصورت دیگر نوجوان ذہن اور قابل دماغی ہجرت معاشرتی اور سماجی مسائل میں اضافے کا سبب ہوگی۔