عدلیہ کی آزادی پر قانونی یلغار؟

246

آئینی ترمیم اور ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق موجودہ صورتحال نے ملکی عدلیہ اور پارلیمانی نظام کو ایک بار پھر تماشا و سوالیہ نشان بنایا دیا ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں جس آئینی ترمیم کو پیش کیے جانے کا امکان ہے، وہ عدلیہ کے وقار کو مزید مجروح کرنے اور ججوں کی مدت ملازمت میں سیاسی مفادات کی بنیاد پر تبدیلی کا راستہ ہموار کرتی نظر آتی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم جس عدالتی نظام کو اپنائے ہوئے ہیں، وہ برطانوی راج کے دور سے ورثے میں ملا ہے۔ لیکن جب ہم اْس وقت کے انگریز عدالتی نظام کا جائزہ لیتے ہیں، تو وہاں ایسی گندی سیاست اور ذاتی مفادات کی نذر ہونے والے فیصلے کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔

وطن عزیز میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ عدالتوں کو سیاسی جماعتوں اور اداروں کے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس سے عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے رہے ہیں۔ اس مجوزہ آئینی ترمیم میں ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کو 65 برس سے بڑھا کر 68 سال کرنے کی تجویز دی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس لیے ہورہا ہے کہ موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آئندہ ماہ اکتوبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دوسری بات نہیں ہے کہ حکومت صرف اس لیے اس وقت ججوں کی مدت ملازمت میں اضافہ کرنے کی خواہش رکھتی ہے، تاکہ چیف جسٹس کو ان کے عہدے پر مزید تین سال تک برقرار رکھا جا سکے۔ تاہم، ماہرین اس اقدام کو مستقبل میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا بھی قرار دے رہے ہیں۔ قانونی ماہرین کے مطابق، جب کوئی قانون سازی مخصوص شخصیت کے لیے کی جاتی ہے، تو اس کا طویل مدتی نقصان ہو سکتا ہے۔ حکومت فوری طور پر تو اپنے مقاصد حاصل کر لے گی، لیکن بعد میں یہی قانون ان کے لیے مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ ایک اور نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کی باتوں کے برعکس ججوں کی تعداد اور عمر میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو قومی خزانے پر مزید بوجھ ڈالے گا۔ اس وقت پہلے ہی بڑی تعداد میں مقدمات عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ ججوں کی تعداد یا عمر بڑھانے سے نہیں، بلکہ زیادہ محنت اور وقت کی بچت سے مقدمات نمٹانے میں ہے۔ اسی پس منظر میں عدالتی حلقوں میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق کوئی واضح موقف پیش نہیں کیا۔ عدالتی سال کے آغاز پر انہوں نے کئی معاملات پر بات کی، لیکن اس اہم مسئلے پر خاموشی اختیار کی۔ اگرچہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت 25 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے، مگر اس بات کی وضاحت تاحال نہیں کی گئی کہ آیا وہ توسیع لیں گے یا نہیں۔ کیونکہ چیف جسٹس کے بیانات اور پریس ریلیز میں ایک محتاط طرزِ عمل اپنایا گیا ہے، جس سے یہ سوال برقرار ہے کہ آیا وہ اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد بھی عہدے پر فائز رہیں گے یا نہیں۔

اس صورت حال میں اپوزیشن نے سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے فرد واحد کو فائدہ پہنچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی میں ایکسٹینشن کا کلچر غیر مناسب ہے اور اس روایت کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے بھی اس ترمیم کی شدید مخالفت کرتے ہوئے درست طور پر اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ موجودہ صورتحال عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے درمیان ایک خطرناک تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔ اگر حکومت نے اپنے منصوبے پر اصرار کیا، تو اس سے نہ صرف عدلیہ کی غیر جانبداری پر سوالات اٹھیں گے، بلکہ عوامی اعتماد بھی مجروح ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے تو عدالت عظمیٰ اور حکومت کے معاملات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھی جھجھک ہوتی تھی لیکن اب کھلم کھلا اس پر بات ہوتی ہے کہ کچھ جج حکومت کے ساتھ ہیں اور کچھ اپوزیشن کے ساتھ ہیں، جب اس حد تک بات آگے چلی جائے تو ملک کے عدالتی نظام پر کس کا اعتبار رہے گا، ان کا کہنا درست ہے کہ چیف جسٹس خود سامنے آکر کہیں گے کہ انہیں مدت میں اضافہ نہیں چاہیے۔ اس وقت سلمان اکرم راجا کے بیان پر بھی نوٹس لینے کی ضرورت ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے ارکان اور ان کے اہل خانہ کو ڈرایا جارہا ہے اگر ان کی یہ بات غلط ہے تو بھی سامنے آجائے اور اگر درست ہے تو اس سے بڑھ کر بدنصیبی کیا ہو سکتی ہے کہ آپ اپنی مرضی کا فیصلہ اور ترمیم کروانے کے لیے پارلیمنٹ کے ارکان کے ساتھ یہ سلوک کریں۔

امیر جماعت اسلامی نے قوم کی طرف سے یہ درست سوال بھی اٹھایا ہے کہ جمہوریت کو اور کتنا پامال کیا جائے گا؟ ایک طرف یہ جماعتیں میثاق پارلیمنٹ کی بات کرتی ہیں اور دوسری طرف حکومت اپنی مرضی کی ترمیم کرنے کے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے تو اس سے زیادہ خراب بات کیا ہوسکتی ہے۔ ملک میں جاری بحرانوں اور مسائل پر حکومت کا رویہ انتہائی افسوسناک ہے۔ پورا ملک بدامنی، بدانتظامی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ بلوچستان کی حالت اس قدر خراب ہے کہ وہاں کے عوام پاکستان کے وجود پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ سندھ میں ریاست نام کی پہلے کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ پنجاب کے کئی علاقوں میں پولیس پر حملے ہو رہے ہیں، جبکہ خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع میں پولیس نے تھانوں کا بائیکاٹ کر دیا ہے، جو ایک سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ مسائل وقتی نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق ملک کے وسیع تر اور گہرے مسائل سے ہے، فوج اور عوام کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج، اور فوج اور پولیس کے آمنے سامنے آنے کی صورتحال ملک کے استحکام کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ حکومت کو اس نازک صورتحال سے نمٹنے کے لیے دانشمندی اور تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے، اس کے بجائے وہ ملک کو درپیش حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے اپنے مفادات کی حفاظت میں مصروف ہے۔ حکومت کی ترجیح ملک کو مستحکم کرنے کے بجائے اپنے من پسند ججوں کو مسلط کرنا ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی مفادات کو محفوظ بنا سکے۔ حکومت کی جانب سے اپنی مرضی کے ججوں کو تعینات کرنے کی باتیں اور آئینی ترامیم کے ذریعے ان کی مدت ملازمت میں توسیع کرنا ملک میں عدلیہ کی خودمختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔ اس طرح کی مداخلتیں جمہوریت کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں، جو کسی بھی مستحکم ریاست کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہیں۔