اسلام آباد: وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اقوام عالم میں مقام حاصل کریں گے، آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں، مہنگائی کی شرح گزشتہ سال 32 فیصد تھی جو اب 9.6 فیصد پر ہے، ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیرِاعظم کی زیر صدارت الیکٹرک وہیکلز کے استعمال کے حوالے سے اجلاس ہوا جس میں الیکٹرک وہیکلز کے حوالے سے ایک جامع فنانشل ماڈل پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔
شہباز شریف نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں کمی صنعت کار، ایکسپوٹرز کے لیے ریلیف ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے زراعت، برآمدکنندگان مستفید ہوں گے، وقت کے ساتھ انشااللہ پالیسی ریٹ میں مزید کمی آئے گی۔ معاشی اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ معیشت درست سمت گامزن ہے ، جس کے باعث پاکستان جلد مشکلات سے جان چھڑا لے گا۔
اجلاس کو ملک میں ای وہیکلز کے استعمال کے فروغ کے حوالے سے بریفنگ میں بتایا گیا کہ سال 2022 سے اب تک مقامی سطح پر 2 اور 3 پہیوں پر چلنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری کے لئے 49 لائسنس جاری کئے جا چکے ہیں جن میں سے 25 کارخانوں میں ان گاڑیوں کو بنانے کا آغاز ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اقوام عالم میں مقام حاصل کریں گے، آئی ٹی کے شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں، مہنگائی کی شرح گزشتہ سال 32 فیصد تھی جو اب 9.6 فیصد پر ہے، ترسیلات زر میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ای وہیکلز کی پالیسی کے حوالے سے تمام صوبوں، وفاقی اکائیوں اور اسٹیک ہولڈرز سے ضروری مشاورت کی جائے۔ لیپ ٹاپ اسکیم کی طرز پر سرکاری اسکولوں کے اچھی کارکردگی دکھانے والے طلبہ میں ای موٹر بائیکس تقسیم کی جائیں گی۔
وزیراعظم نے تمام وفاقی وزارتوں کو ہدایت جاری کرنے کے احکامات دیتے ہوئے کہا کہ آئندہ تمام وفاقی سرکاری اداروں کے لیے صرف الیکٹرک موٹر بائیکس کی خریداری کی جائے گی تا کہ قومی خزانے کی بچت ہو۔
وزیراعظم نے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو اسلام آباد میں بجلی پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالےسے جامع پلان ترتیب دینے کی ہدایت کی۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا جو دائرہ وسیع کیا گیا اس میں ابھی خلا ہے، پاکستان کی تاجربرادری محنتی اور قابل احترام ہے، تاجر رزق حلال کما کرملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، ٹیکس ادائیگی کے حوالے سے تاجروں کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ کسی ایک شعبے پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنے سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، زرعی شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا گیا جس کا اطلاق آئندہ سال سے ہو گا، ٹیکس کے غبن کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر قرضوں سے نجات نہیں ملے گی۔