(آخری حصہ)
4۔ تاجر دوست اسکیم کے نفاذ سے پیدا ہونے والے غیرمنصفانہ نظام اور خدشات کا خاتمہ کیا جائے گا۔ تاجروں پر ٹیکس کا نظام آسان اور سہل الحصول بنایا جائے گا۔
5۔ تاجروں، ایکسپورٹرز کے مسائل کے حل کے لیے فوری طور پر ایک کمیٹی NOTIFY کی جائے گی جو حکومت، ایکسپورٹرز اور تاجروں پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی ایک ماہ کے اندر اپنا کام مکمل کرے گی۔
6۔ وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت آئی پی پیز کے معاملہ میں سنجیدہ ہے، جماعت ِ اسلامی کا مطالبہ قومی مطالبہ ہے، اِسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظرثانی کے لیے مکمل جانچ پڑتال کی جائے گی۔ حکومت نے اِسی لیے بااختیار ٹاسک فورس قائم کردی ہے جو ایک ماہ میں اپنا کام مکمل کرے گی۔
7۔ ماہِ اگست 2024ء بجلی کے بل کی ادائیگی 15 دن کے لیے مؤخر کی جارہی ہے تاکہ صارفین کو سہولت حاصل ہو۔
طے پایا کہ ٹاسک فورس درج ذیل اقدامات بھی کرے گی:
(1) آئی پی پیز کی جانچ پڑتال کا مقصد عوام کو ریلیف دینا اور فی یونٹ لاگت کم کرنا ہے، تاکہ کیپیسٹی بلز ادائیگی کی بچت براہِ راست بجلی فی یونٹ کی کمی سے منسلک ہو۔
(2) ٹاسک فورس واپڈا چیئرمین، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، ایف پی سی سی آئی کے نمائندے بھی Opt کرے گی۔
مذاکراتی کمیٹیوں نے حکومت کی طرف سے قائم کردہ ٹاسک فورس کے درجِ ذیل نکات (TORs) سے اتفاق کیا گیا:
ٹاسک فورس اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی میں:
(i) پبلک/پرائیویٹ سیکٹر سے کسی بھی ماہر کا انتخاب کرے گی۔
(ii) مقامی اور/یا بین الاقوامی مشاورتی فرموں، بینکرز، قانونی مشیروں، چارٹرڈ اکاؤنٹنسی فرموں، یا کسی دوسری تنظیم یا فرد سے جیسا کہ ضروری سمجھا جائے، ریکارڈ اور معلومات اور/یا مدد حاصل کرے گی۔
ٹاسک فورس کے حوالہ کی شرائط (TORs) حسب ذیل ہیں۔
(i) پاور سیکٹر کو مالی اور آپریشنل طور پر پائیدار بنانے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔
(ii) اس کے نفاذ کے ساتھ ایک موثر اور لیکویڈیٹی پر مبنی پاور مارکیٹ ڈیزائن کرنا۔
(iii) ترقی کی حوصلہ افزائی کے لیے صنعتوں /SEZs کی طرف سے اضافی صلاحیت کے استعمال کی سفارش کرنا۔
(iv) صلاحیت کی ادائیگیوں کو کم کرنے کے لیے اقدامات کا جائزہ لینا اور تجویز کرنا، بشمول لیکن ان تک محدود نہیں بعض پلانٹس کو بند کرنا اور مناسب سمجھے جانے والے دیگر ضروری اقدامات کرنا۔
(v) ملک میں مختلف آئی پی پیز کے سیٹ اپ لاگت سے متعلق معاملات کا جائزہ لینا اور ان کو درست کرنے کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ تجویز کرنے کے لیے غلط طریقوں، طریقہ کار کی کمزوریوں اور ریگولیٹری خلا کی نشاندہی کرنا؛
(vi) متعلقہ سرکاری ایجنسیوں؍ اداروں کے ساتھ دستخط کیے گئے مختلف معاہدوں کے پیرامیٹرز؍ شرائط و ضوابط کے ساتھ آئی پی پیز کی تعمیل کا جائزہ لینا؛ اور
(vii) توانائی کے شعبے میں سرکلر ڈیبٹ اسٹاک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کی سفارش کرنا۔
(viii) ٹاسک فورس کا کردار حقائق کی تلاش تک محدود نہیں ہوگا، اور ٹاسک فورس اپنی سفارشات پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے بھی ذمے دار ہوگی۔
(ix) ٹاسک فورس کو وفاقی حکومت کی جانب سے مطلوبہ بجٹ مختص کرنے سمیت مکمل تعاون فراہم کیا جائے گا۔
(x) اپنے قیام کے ایک ماہ کے اندر، ٹاسک فورس اپنی سفارشات اور عمل درآمد کے منصوبے کے ساتھ وزیر اعظم کو غور کے لیے پیش کرے گی۔
جماعت ِ اسلامی اور حکومتی وزراء کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان مذاکرات کے پانچ ادوار میں درج ذیل مطالبات پر تفصیلی بحث ہوئی لیکن اِن پر اتفاق نہ ہوسکا۔ حکومتی ٹیم نے اِس کی وضاحتیں کیں کہ حکومت اِن مطالبات پر پہلے ہی کام کررہی ہے اس لیے انہیں آئندہ مراحل میں دیکھا جائے گا:۔
٭ سْود کی لعنت کو مکمل ختم کرنا تو لازم ہے ہی لیکن حکومت ابتدائی طور پر بجلی کے بِلوں میں فوری ریلیف دینے کے لیے شرح سْود میں 5 سے 10 فی صد بتدریج کمی لائے گی۔ اِس اقدام سے حکومت کوعوام کو ریلیف دینے کے لیے ہزاروں ارب روپے اضافی حاصل ہوجائیں گے۔ اِسی طرح بینکوں؍ مالیاتی اداروں کی ریزرو شرح کو 25 فی صد تک کردیا جائے گا۔
٭ K الیکٹرک کا بھی فرانزک آڈٹ کیا جائے گا۔ اس کا میکنزم بنایا جائیگا اور اس کے لیے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ KE کی monopoly کو ختم کیا جائے گا۔ KE کی generation براہِ راست کی جائے گی اور ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے لیے competition کو پیدا کرتے ہوئے متعدد کمپنیوں کو شامل کیا جائے گا۔
٭ سرکاری سطح پر سیاسی، حکومتی، انتظامی اہل کاروں کے لیے گاڑیوں کا استعمال 1300 سی سی تک محدود کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔ نیز سرکاری اہل کاروں کے لیے مفت مراعات خصوصاً ذاتی استعمال کے لیے مفت پٹرول کی مراعات ختم کی جائے گی۔
٭ حکومت آٹا، چینی، بچوں کا دودھ اور اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکسوں کا بوجھ ختم کرکے ان اشیائے ضروریہ میں عوام کو ریلیف دے (حکومتی ٹیم نے وضاحت کی کہ اِس پر غور اور عمل کیا جارہا ہے)۔
مطالبات کے جو نکات طے پا گئے ہیں حکومت اپنے آپ کو پابند سمجھتی ہے کہ اْن پر اْس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرے گی۔ حکومت اور جماعت ِ اسلامی کی کمیٹی اِس سلسلے میں وقتاً فوقتاً ملاقات کرکے عملدرآمد کا جائزہ لے گی۔
نوٹ: مذاکرات کے ادوار میں حکومتی ٹیم کی جانب سے وفاقی وزیرِ توانائی اویس لغاری، وفاقی وزیر امورِ کشمیر امیر مقام، چیف وہپ طارق فضل چودھری اور ٹیکنیکل ٹیم میں توانائی، پلاننگ، ایف بی آر کے اعلیٰ سِول افسران بھی شریک ہوتے رہے۔
عوامی جدوجہد ہی وہ کسوٹی ہے جو نہ صرف حکمرانوں کو راہِ راست پر آنے پر مجبور کر سکتی ہے، بلکہ اس نظام کو تبدیل کرنے کا بھی موجب بن سکتی ہے جس کی بنیاد حکمرانوں کی عیاشی اور لْوٹ مار کے اْصول پر رکھی گئی ہے۔ بجلی کے بھاری بھرکم بلوں، ناروا ٹیکس اور ناقابل ِ برداشت مہنگائی سے عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے اور اْن میں مزید برداشت کی سکت نہیں رہی۔ حکومت بھی عوام کی نبض کو سمجھتے ہوئے نمائشی اقدامات کرنے پر اْتر آئی ہے۔ لیکن اب عوام اِن نمائشی اور عارضی اقدامات کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں۔ عوام مہنگائی، بھاری بھرکم بلوں، ناروا ٹیکس، مہنگائی کے خلاف حقیقی ریلیف چاہتے ہیں۔ اگر حکومت نے حسب ِ معاہدہ طے شدہ مدت کے دوران عوام کو ریلیف نہیں دیا تو پھر ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک ملک گیر عوامی انقلاب میں تبدیل ہوکر ظالم حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمہ کا سبب بنے گی۔