پاکستان اس وقت کئی داخلی اور خارجی محاذوں پر بر سر پیکار ہے۔ دہشت گردی کا عفریت گزشتہ دنوں کتنی زندگیوں کو بے رحمانہ نگل گیا۔ بلوچستان ایک آتش فشاں کے دہانے پر اور دہکتے ہوئے انگارے میں تبدیل ہو چکا ہے۔ دہشت گرد ہمیشہ کہیں نہ کہیں کسی آسان ہدف کے حصول میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ کے پی کے، کے حالات ہوں یا کوئی اور مقام ہر جگہ دہشت گردوں کی واردات کا خوف جان لیوا بنا ہوا ہے۔ دفاعی مقامات تک دہشت گردوں کی پہنچ سے محفوظ نہیں ہیں۔ دہشت گرد اپنے سہولت کاروں کی مدد سے جہاں چاہتے ہیں رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے دفاعی ادارے چاہے وہ نیم فوجی ہوں یا فوجی ان کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف جو کارروائیاں کی جاتی ہیں وہ پریس ریلیز اور الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے گاہے گاہے عوام الناس کے علم میں لائی تو جاتی ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر حالات کیوں قابو میں نہیں ہیں؟۔
شہر کراچی ڈاکوئوں اور داخلی دہشت گردوں کی زد میں ہے۔ پیپلز پارٹی علامتی کاموں کی تشہیر مختلف عنوانوں کے تحت اشتہارات کی بارش کر کے نہ جانے کس کو مرعوب اور نہ جانے کس کو کیا بتانا چاہ رہی ہے؟، زمینی حقائق دیکھنا ہوں تو کسی بھی ٹیلی وژن چینل کے عوامی مسائل اُجاگر کرنے والے پروگرام میں رائے عامہ کے مقامی مسائل کے حوالے سے انٹرویو دیکھ لیں، ہر شہری مسائل کا شکار اور حکمرانوں پر تبرا بھیجنے پر مجبور ہے۔ حکومت سندھ کے نام سے پیپلز پارٹی اپنے من پسند اخبارات اور ٹی وی چینلز کو اشتہارات کی بندر بانٹ بطور سیاسی رشوت، پارٹی تشہیر کے لیے نوازشوں میں مصروف ہے، اس سے ملتی جلتی صورتحال صوبہ پنجاب میں بھی ہے جو بظاہر تو حکومت پنجاب لیکن دراصل (ن) لیگ کی طرف سے پارٹی تشہیر کے حوالے سے من پسند الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو سرکاری اشتہارات کی صورت میں سیاسی رشوت اور نوازشیں ہیں۔ اگر ایسے میں پی ٹی آئی نے 8 ستمبر کے جلسہ میں کے پی کے حکومت کے سرکاری وسائل استعمال کیے تو اس پر (ن) لیگ کیوں معترض ہے؟۔
2024 کے الیکشن میں فارم 47 سے ایم کیو ایم کو دھاندلی کی جس شرح سے جتایا گیا ہے عوام الناس کی نظروں میں اس کے اصلی چہرے اور حقیقی مینڈیٹ نے اس کی عوامی مقبولیت کا بھانڈا عین چوراہے پر پھوڑ دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایم کیوایم کم سے کم تنخواہ پر کام کرنے پر راضی ہے، وزارت اور شاہ کے مصاحبین کے درجہ پر فائض اور مصنوعی مسکراہٹیں بکھیرنے پر مجبور ہیں۔ کسی زمانے میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کو حکمراں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے ذریعہ شہرت اور اہمیت حاصل رہی، اب یہ اہمیت گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن کو حاصل ہوتے دیکھی گئی جب وزیراعظم اور صدر پاکستان ان کی دست بوسی کے لیے اپنے قدموں پر چل کر ان کی قیام گاہ پر پہنچے، مولانا کے ارد گرد بیٹھے معتقدین کے تمتماتے چہرے بہت کچھ بتا رہے تھے۔ مولانا کے سابقہ بیانات، رد عمل اور لب و لہجہ اس بات کا غماز تھا کہ عمران خان کی اچھی خاصی چلتی حکومت کو چلتا کرنے میں جتنی کاوش اور ہاتھ مولانا کا تھا اس حساب سے اقتدار میں ان کا حصہ بقدر جثہ نہیں مل سکا تھا چاہے وہ ریاستی مناصب ہوں یا 2024 الیکشن میں فارم 47 کے مطابق نشستوں کی تقسیم۔ مولانا کو اب یا آئندہ جو کچھ ملنے والا ہے یا خیر سگالی کے طور پر ہی سہی یہ ان ہی کے علم میں ہوگا، انہوں نے فارم 45 اور 47 کو ایک جیسا ہی تسلیم کر لیا ہے۔ یقینی طور سے وہ اپنے اس عمل سے اپنے تئیں سرفراز ہوئے یا وقت نے ان کے زخموں کو مندمل کیا؟۔ مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کے درمیان قربت خاصی بڑھی، الیکشن 2024 میں دھاندلی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن اور پی ٹی آئی کا ایک ہی موقف تھا لیکن ذرائع کے مطابق مولانا کا یہ کہنا تھا کہ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ کے پی کے کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کو خط لکھ کر جوڈیشل کمیشن بنانے اور الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کی درخواست کی جائے، اگر اس حوالے سے پی ٹی آئی پہل کرتی ہے تو لامحالہ الیکشن کمیشن اور دیگر صوبے بھی کچھ سوچنے پر مجبور ہوں گے لیکن پی ٹی آئی اس پر راضی نہ ہوئی، اس کے علاوہ کچھ اور معاملات بھی تھے جو ان قرابتوں کو اتحاد میں نہ بدل سکے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اگر مولانا اپنی اسٹریٹ پاور لے کر پی ٹی آئی کے ساتھ اس کٹھن وقت میں جن کے خلاف صف آرا ہوں گے تو اس کے عوض ان کو کیا ملے گا؟، یہ اور ایسے دوسرے امور بھی مولانا کے زیر غور رہے ہوں گے۔
پی ٹی آئی کا 8 ستمبر کا اسلام آباد کا جلسہ کچھ اور کہانی سنا رہا ہے، اخباری اطلاعات کے مطابق جلسے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کی بے دریغ گرفتاریاں کی گئیں۔ پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سے بھی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں۔ اگر پی ٹی آئی کو سہولت سے جلسہ کر لینے دیا جاتا اور بڑی تعداد میں لوگ جمع بھی ہوجاتے تو اس میں حکومت کے لیے پریشانی کی کیا بات تھی، جلسے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر کے اس نے خامخواہ بدنامی مول لی۔ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک عمران خان کی ذات سے وابستہ ایک حقیقت ہے، حکومت کے لیے پریشانی تو جب ہونی چاہیے تھی جب پی ٹی آئی کا ووٹ بینک نہیں ہوتا اور یہ بڑے بڑے جلسے کرتے نظر آتے۔
پی ٹی آئی اور (ن) لیگ میں مخاصمت اور سیاسی اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو رہی ہے۔ علی امین گنڈاپور کا 8 ستمبر اسلام آباد جلسے میں لب و لہجہ اور بازاری زبان پر تحریک انصاف اور عمران خان کے مداحوں کی عمومی خاموشی اور جاذبیت ہمارے اخلاقی زوال کے گراف کا نقطہ عروج بنتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو اقتدار سے محروم کر دینے والوں کی طرف سے متعین (ن)لیگ کے وکلا عطا تارڑ، خواجہ آصف، رانا ثنا اللہ اور عظمیٰ بخاری کا گنڈاپور کو ان ہی کے سکوں میں جواب الجواب پی ٹی آئی کے لیے اچھا شگون نہیں۔ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے دو مختلف بیانیے ہیں، ان دونوں کا ایک بیانیہ اور چہرہ تو وہ ہے جو روزانہ کی بنیاد پر دونوں مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر بحثوں میں کبھی سنجیدہ، کبھی مسکراتے اور کبھی ہنستے نظر آتے ہیں، دوسرا بیانیہ ان دونوں کا اصل چہرہ ہے اور وہ ہے پی ٹی آئی کا اسے اقتدار سے محروم کرنے والوں پر غیظ و غضب کا اظہار جبکہ رد عمل کی ترجمانی کا فریضہ (ن) لیگ کے وکلا اور کبھی ترجمان صحافیوں کی انویسٹی گیشن رپورٹس میں مشورہ وغیرہ کے ذریعہ ہوتا ہے۔ اس تمام سیاسی صورتحال اور پس منظر میں اگر ایک طرف تمام سیاسی پارٹیاں اپنے مفاد کے لیے ایک دوسرے کے خلاف متحد اور محاذ آرائی ہیں ان کے اپنے ووٹر اور غریب عوام رل رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں تو دوسری طرف جماعت اسلامی حافظ نعیم کی قیادت میں ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک کے حوالے سے عوام، طلبہ، مزدوروں اور تاجروں سے شہر شہر مسلسل رابطہ میں ہے، بھاری بجلی بلوں اور مہنگائی کے خلاف مزاحمت اور جدوجہد کے لیے ایک بڑی اور طویل مہم کے لیے عوام کو اور تاجروں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ حافظ نعیم حکومت کے ساتھ معاہدے کی مدت کا ایک ایک دن گن رہے ہیں اور حکومت کو عوامی غیظ و غضب سے متنبہ کر رہے ہیں۔
تاجروں کے ساتھ کامیاب ہڑتال کے بعد انہوں نے پہیہ جام ہڑتال اور لانگ مارچ کی بات کی ہے۔ عوامی مزاحمت کے اہداف میں فی الوقت حکمرانوں کے اللے تللے بند کرانا اور عوام کو ریلیف دلانا ہے، معاہدہ میں درج تمام مطالبات پر عملدرآمد نہ کرنے اور حکمرانوں کے تاخیری روایتی ہتھکنڈوں کی صورت میں ’’حق دو عوام کو‘‘ تحریک حکومت گراؤ تحریک میں بدل سکتی ہے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے۔