کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) قرآن و سنت پر عمل پیرا ہو کر ہی مغربی تہذیب کے اثرات سے نجات ممکن ہے‘ حکومتی سطح پر اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم،بھلائی کی طرف بلانا اور برائی سے منع کرناہوگا‘ جدید طریقہ تعلیم و تدریس استعمال کرکے قرآن کو سمجھ کر اور سمجھا کر پڑھایا جائے‘ مغربی تہذیب نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو فروغ دیا‘مذہبی و روحانی پہلو نظرانداز کردیے۔ ان خیالات کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر لیاقت بلوچ، تنظیم اسلامی کے امیر مولانا شجاع الدین شیخ، جامعہ کراچی کی سابق رئیس کلیہ معارف اسلامیہ پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی اور جامعہ کراچی کی پروفیسر، افسانہ نگار ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’مغربی تہذیب کے اثرات سے نجات کیسے ممکن ہوگی؟‘‘ لیاقت بلوچ نے کہا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی پیروی کرے گا وہی کامیاب ہوگا‘ ہم اللہ کے احکامات سے انحراف کرکے بربادی کی تہذیب کا راستہ اختیار کریں گے‘ اسلام فرد کی زندگی کو دین اور دنیا کے الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا‘ اسلام نسلی، علاقائی امتیازات، تہذیب کے بجائے انسان کو فطرت کی جانب بلاتا ہے‘ قرآن و سنت کی تعلیم فرد کو دو قومی نظریہ کی طاقتور بنیاد سے آشنا کرتی ہے، اس لیے قرآن ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا‘ انسان کی ہر تمنا پوری ہوتی ہے نہ ہی ہوائیں ملاحوں کی خواہش پر چلتی ہیں اس لیے زندگی کے ہر محاذ پر یہ یقین کامل ہو کہ انسانی زندگی کے سمندر کا ناخدا اور حکمران اللہ تعالیٰ ہی ہے اور انسانی زندگی کی تہذیب و معاشرت کے لیے بہترین اسلوب اسوۂ رسول اللہﷺ میں ہے‘ جدید مغربی تہذیب اپنے عروج سے زوال کی طرف ہے‘اس نے انسان کو بے وقعت، عورت کو بے وقار، خاندان کے نظام کو توڑ پھوڑ دیا ہے اور انسان کو مادر پدر آزادی اور میرا جسم میری مرضی کے خوشنما تیزاب میں ڈال کر تباہ کردیا ہے‘ اس لیے مغربی تہذیب کے تباہ کن اثرات سے نجات کے لیے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا‘ ‘اپنی ذات، خاندان اور معاشرتی نظام کو شرم وحیا، باہمی عزت و احترام کے خطوط پر استور کرنا ہوگا‘ نماز کا قیام، مسجدوں کا آباد کرنا اور طرز تکلم میں اخلاق کے بلند مقام کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ مولانا شجاع الدین شیخ نے کہا کہ جہاں تک مغربی تہذیب کی اٹھان کا تعلق ہے‘ وہ خالق کائنات اور آخرت کے انکار پر مبنی ہے‘ مغربی تہذیب میں کائنات ہی کائنات، جسم ہی جسم اور دنیا ہی دنیا پر توجہ ہے‘ دراصل ظاہر کی نگاہ ظاہر کو دیکھتی ہے‘ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ترقی مغربی معاشرے سے آئی‘ سائنس کا دائرہ کار مشاہدات تک محدود ہے جو چیز ہمارے حواس خمسہ میں آئے اس کا اقرار کر لیں اور جو حواس خمسہ میں نہیں آئے اس سے انکار کر دیا جائے‘ آخرت اور روح نظر نہیں آتی اس لیے اس کا انکار، جسم، دنیا اور کائنات نظر آتی ہے تو اس کا اقرار کیا جائے اور ساری توجہ اس ہی پر مرکوز رکھی جائے‘ ان اثرات سے بچنے کے لیے پہلی بات تو مسلمانوں کو قرآن حکیم سے جوڑنے کی ضرورت ہے‘ وہ قرآن جو ایمان کی آبیاری کے ساتھ پوری دنیا و کائنات کا عکس دیتا ہے‘ بندہ مومن وہ ہے جو آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے‘ قرآن حکیم کو جتنا ہم اپنے مسلمانوں کے دلوں میں اتارنے کی کوشش کریں گے تو اس سے مغربی و دجالی تہذیب کا ایک درجے میں مقابلہ ہوسکے گا‘ مغربی تہذیب کے نتیجے میں ایک طرف سائنس اور ٹیکنالونی کی ترقی میں سہولیات تو نظر آتی ہیں لیکن روحانی پہلو اس سے بالکل نظرانداز ہوتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ مغربی خاندانی نظام سکون و اطمینان کے حوالے سے تباہی کا شکار ہے‘ یہ اثرات مسلم معاشرے میں بھی ہیں البتہ مغربی تہذیب کی تباہ کاریاں معیشت کے میدان میں سودی نظام کی وجہ سے ہیں جبکہ سیاست کے نظام میں سیکولرازم ( مادر پدر) آزاد نظام کے نتیجے میں ہیں‘ ہم جو قرآن حکیم اور سنت نبویؐ کو ماننے والے مسلمان ہیں‘ ہمارے پاس ایک پورا نظام حیات موجود ہے جو وحی کی تعلیمات پر مبنی ہے‘ رسول اکرمؐ نے اس نظام کو نافذ کر کے دکھایا مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ 57 اسلامی ممالک میں سے کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اسلام کا عادلانہ نظام اپنے آب وتاب کے ساتھ قائم ہو‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم کیا جائے، جب یہ نظام قائم ہوتا ہے تو انسانوں کو جینے کا موقع ملتا اور مساوات نظر آتی ہے‘ لوگوں کو سکون میسر آتا اور جان و مال اور عزت آبرو کی حفاظت ہوتی ہے‘ اسلامی عادلانہ نظام کی خوبیاں سامنے آتی ہیں۔ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ مغربی سر مایہ دارانہ نظام میں انسانوں کو غلام بنا دیا‘ اب ہمیں اللہ تعالیٰ نے پاکستان عطا کیا ہے، ہمارا فرض بنتا ہے کہ یہاں پر ایک عادلانہ نظام قائم کر کے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ ڈاکٹر شہناز غازی نے کہا کہ مغربی تہذیب نے جس طرح ہماری تہذیب میں اپنی جگہ بنائی ہے‘ مغربی تہذیب سے نجات حاصل کرنے میں اس سے ڈبل وقت لگے گا‘ انفرادی سطح پر تو عوام کو آہستہ آہستہ اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ مغربی تہذیب سے کس طرح نجات حاصل کر نی ہے جنہیں اس بات کی سمجھ آگئی ہے‘ وہ اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں مگر آبادی میں اس قدر اضافہ ہوچکا ہے کہ عوام کی اکثریت اس بات کا ادراک نہیں رکھتی کہ مغربی تہذیب کے اثرات ہماری تہذیب پر کس طرح اثر انداز ہو رہے ہیں جبکہ معاشرے میں جہالت اس قدر ہے کہ انہیں سمجھانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا‘ نئی نسل تقریباً مغربی تہذیب میں ہی رنگی ہوئی نظر آتی ہے‘ دراصل ہمارے معاشرے میں حکومتی سطح پر ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کو اہمیت ہی نہیں دی گئی‘ اس طرح کا کوئی نظام ہے نہ ہی بنایا گیا‘ اسی طرح ہمارے گھروں میں بھی نیکی اور بدی کے تصور کے حوالے سے کوئی نظام ترتیب دیا جاتا ہے‘ ہر فرد کو ’’امر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کے تحت اپنی زندگی کو ڈھالنا ہوگا۔ ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے کہا کہ اس وقت پانی سر سے اونچا ہوچکا ہے‘ ہم اب سیلاب پر بند باندھنے کا سوچ رہے ہیں‘ 90 کی دھائی سے ہمیں اس کے بارے میں آگاہی تھی کہ اب کیا طوفان آنے والا ہے جب ہنٹنگٹن نے clash of civilization پر سے پردہ اٹھا دیا تھا‘ ٹیکنالوجی کا فروغ اور پھیلاؤ ہونے جا رہا تھا‘ میں اس وقت 2 بڑے اہم سبجیکٹس” جدید دنیائے اسلام” اور” سیرت النبی و مستشرقین” یونیورسٹی کی سطح پر پڑھا رہی تھی‘ اس کے ذریعے اپنے طلبہ و طالبات سے ریسرچ ورک کرانے کے دوران مجھے بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں بھی کرنی پڑتی ہیں تاکہ اپنے اسٹوڈنٹس کو صحیح رخ پر رکھ کر آنے والے زمانے کے لیے ذہن سازی کر سکوں‘ اس دوران آج جو سامنے ہے ان حقائق کے انکشافات اور خدشات جان کر بڑی گھبراہٹ ہوا کرتی تھی‘ہماری قوم اگلے دور سے لاتعلق غفلت میں ہے‘ میں نے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ مل کر بہت کام کیا‘ سیمینارز کیے اور ان میں اپنے اندازے کے مطابق لوگوں کو آگاہی دی ہے‘ وہ بیک وقت اسلامک اسٹیڈیز اور کمپیوٹر سائنس پڑھ رہے ہیں‘ الحمد للہ وہ بہت کام کر رہے ہیں‘ قرآن کو سمجھ کر عمل کرنے کی کتاب کا درجہ دلوادیں‘ جدید طریقہ تعلیم و تدریس استعمال کرکے قرآن پڑھائیں‘ اس وقت ایچ ایم سی نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ ہر یونیورسٹی میں قرآن کی تعلیم ہو تو وہ بھی تجوید کے ساتھ ناظرہ پر زور دے رہے ہیں‘ پڑھانے والوں کو ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھانے کی ضرورت ہے‘ اسی طرح مغربی تہذیب کے اثرات سے نجات ممکن ہو گی۔